اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں رہ کر ہی جائز ہے، والدین کی قدم بوسی کی اجازت تو ہے؛ لیکن اِس کی وجہ سے عقائد میں غلو ہوسکتا ہے؛اس لیے فقہاء نے بر بناء اِحتیاط والدین کے قدموں کو چومنے سے منع کیا ہے، چندفتاوے پڑھیے: (۱) تعظیم کے لیے ماں کے پیروں کو چھونا قرآن پاک کی کسی آیت اور حدیث شریف(۱) کی کسی روایت میں نہیں دیکھا، یہ اسلامی تعظیم نہیں؛ بلکہ غیروں کا طریقہ ہے، جس سے بچنا چاہیے۔(فتاوی محمودیہ:۱۹؍۱۳۲) (۲) والدین، اساتذہ اور مشائخ کی قدم بوسی کی اجازت ہے؛ بشرطیکہ سجدہ کی ہیئت نہ پیداہوجائے اور دیکھنے والوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ سجدہ کررہاہے؛ ورنہ اجازت نہیںاور احتیاط کاتقاضہ بھی ہے کہ اُن کی بھی قدم بوسی نہ کی جائے۔(حوالہ سابق) (۳) پاؤں کو چومنے میں بسا اوقات سجدہ کی صورت ہوجاتی ہے، نیز دوسروں کے عقائد خراب ہونے کا اندیشہ ہے کہ وہ تعظیم میں غلو کریں گے؛ لہٰذا احتیاط یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیاجائے۔(حوالہ سابق) (۴) حدیث میں ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے والدہ کے سامنے احتراماً جھکنے کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے اس کو بھی منع فرمادیا اور ارشاد فرمایا: زبان سے سلام کردینا کافی ہے، تو جب جھکنے کی بھی حضورﷺ نے ممانعت فرمادی تو ظاہر ہے کہ پاؤں چھونے اور قدم بوسی کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے۔(کتاب الفتاوی:۱؍۳۳) بیوی شوہرکے پیر چھو سکتی ہے؟ یہ طریقہ عام طور سے غیر مسلموں میں پایا جاتا ہے کہ اُن کے یہاں بیوی، شوہر کے پاؤں چھوتی ہے؛ بلکہ ہر چھوٹا، اپنے بڑے کے پاؤں چھو کر اس کی تعظیم کرتا ہے، اسی طرح غیر مسلموں میں یہ رواج ہے کہ کوئی عمر میں چھوٹا، اپنے بڑے کے پاؤں کو چھوتا ہے، بڑااس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتا ہے، جسے وہ لوگ آشیرواد کہتے ہیں، یہ بھی ناجائز ہے، اولاً یہ اسلامی طریقہ نہیں، ثانیاًغیر مسلموں کاطریقہ ہے؛اِس لیے مسلم گھرانوں میں بیوی کا، اپنے شوہر کے پاؤں (۱) مولف عرض گزار ہے: مبسوط سرخسی میں ہے: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: من قبل رجل أمہ فکأنما قبل عتبۃ الجنۃ کہ جس نے اپنی ماں کا پاؤں چوما گویا اس نے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا، مبسوط میں ہی ہے: محمد بن المنکدر سے منقول ہے کہ ایک رات میں اپنی والدہ کے پاؤں دباتا رہا اور میرا بھائی ابو بکر تمام رات نمازمیں مشغول رہا اور مجھے ہر گز پسند نہیں کہ میں اپنی رات کو ان کی رات سے بدل لوں، مبسوط کتاب الاستحسان:۱۰؍۱۴۹۔ چھونا جائز نہیں۔ مفتی محمود صاحبؒ لکھتے ہیں: پیر پکڑنا جس کو ’’پر لاگن‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی صرف پیروں کو چھولینا یہ برہموں کے یہاں تعظیم کا رواج اور ان کا شعار ہے، اس سے پرہیز لازم ہے۔(محمودیہ:۱۹؍۱۳۴) پیر پکڑ کر معافی مانگنا پیچھے کی تصریحات کی روشنی میں یہی کہا جائے گا کہ پرہیز لازم ہے، کبھی