اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کسی کو خلل اورتکدُّر نہ ہو؛ اس سلسلے میں فقہاء نے جتنی صورتیں لکھی ہیں ان کو اسی نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ عموماً اس موقع پر لوگوں میں سلام وجواب کا رواج ہے، اور رواج کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کو، کوئی تکلیف نہیں ہوتی؛ اگرکہیں احوال وقرائن سے معلوم ہو کہ کھانا کھانے والے کو سلام کریں گے تو اُسے ذہنی اذیت ہوگی تو اب سلام کرنا مکروہ ہوگا، فقہاء کا بیان کردہ یہ مسئلہ در حقیقت باب معاشرت کا ایک ادبی پہلو ہے، جس نے اسے سمجھا، اس نے صحیح سمجھا اور جس نے اس علت کو نہیں سمجھا، اس نے اس مسئلہ کامذاق اڑایا، علم الگ چیز ہے اور تحقیقی علم الگ چیز ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کا ایک مسئلہ مَرّ علی قوم یأکلون؛ إن کان محتاجا وعرف أنہم یدعونہ، سلَّم وإلا فَلَا کذا في الوجیز للکردري۔ کسی کا ایسے لوگوں پر گذر ہو، جو کھانا کھارہے ہوں اگر اسے کھانے کی شدید حاجت ہو اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ بلالیں گے تو سلام کرے ورنہ نہیں۔(ہندیہ ۵؍۳۲۵) اس مسئلہ کو بھی بابِ معاشرت سے جوڑ کردیکھنا چاہیے، سطحی طورسے مسئلہ کو دیکھیں گے تو عجیب وغریب لگے گا؛ کہ بھوکا ہے تو سلام کرے اور بھوکا نہیں ہے تو سلام نہ کرے؛ لیکن اگر مسئلہ کے دوسرے پہلو پر غور کریں تو فقہاء کی ذہانت کی داد دیں گے، اسلامی معاشرہ میں مل جل کر رہنا، ایک دوسرے کے غم میں شریک ہونا،ایک دوسرے کی دل جوئی کرنا، ایک دوسرے پر احسان کرنا، ایک دوسرے کی جانی اورمالی مدد کرناو غیرہ،جیسی صفات کی بڑی اہمیت ہے، اِس مسئلہ کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایک شخص جس کے گھر میں فاقہ ہے، شدید بھوک کا احساس ہے، لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنااُس کی غیرت وحمیت کے خلاف ہے، اس کا گذر کچھ ایسے مخلص اور نیک مسلمانوں کے پاس سے ہوا، جو کھانا کھارہے ہیں جن کے بارے میں یہ قرائن واَحوال سے معلوم ہے کہ یہ لوگ یوثرون علی أنفسہم کے مصداق ہیں، دوسروں کو کھلا کرانہیں بہت سکون ملتا ہے، ایسے لوگوں کو سلام کرنے کا حکم ہے؛ تاکہ ان کی توجہ اِس غریب کی جانب ہو اور یہ لوگ اُسے بھی شریکِ طعام کرلیں، بتائیے اِس میں کیا قباحت ہے۔ اور اگر گذرنے والا بھوکا نہیں ہے یا بھوکا ہے؛ لیکن احوال وقرائن سے معلوم ہے کہ کھانا کھانے والے صرف اپنی سوچتے ہیں، انہیں اپنے پیٹ کی فکر ہے، یا کھانا اتنی کم مقدار میں ہے کہ کسی ایک کا ہی پیٹ بھر سکتا ہے، تو ان صورتوں میں سلام نہ کرنا ایک اخلاقی فریضہ ہے، گذرنے والا بھوکا نہیں ہے، اس نے سلام کیا، اب خواہ مخواہ کھانا کھانے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے گا، وہ لوگ اسے کھانے پر بلائیں گے، یہ انکار کرے گا اِس بناپر کہ اُسے کھانے کی ضرورت نہیں، وہ اِصرار کریں گے اس بنا پر کہ اسے شریکِ طعام کرنا ایک اخلاقی بات ہے، اب خواہ مخواہ ایک الجھن پیدا ہوگی؛ لہٰذا سلام ہی نہ کرے، بلکہ انتظار کرے؛ جب وہ کھانے سے فارغ ہوجائیں تو مل لے۔ اگر وہ بھوکا ہے؛ لیکن اُسے معلوم ہے کہ یہ لوگ اُسے بلائیں گے نہیں، یا کھانا بہت کم مقدار میں ہے، پہلی صورت میں سلام کرنا، اس کی بے عزتی اور غیرت کا مذاق