اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خط کے اختتام پر والسلام علیکم لکھاجاتا ہے، صحابہ کرامؓ آپس میں خط وکتابت اسی طرح کیا کرتے تھے جیسا کہ پیچھے دو خطوط بہ طور نمونے کے ذکر کیے گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ آغازِ خط میں صرف السلام علیکم یا سلامٌ علیکماور اختتامِ خط میں والسلام علیکمکیوں لکھا جاتا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ واو عربی کا لفظ ہے جو عطف کے لیے آتا ہے یعنی اپنے مابعد کو ما قبل سے جوڑ دیتا ہے جیسے اردو میں ’’اور‘‘ آتا ہے، یہاں واو کے ذریعہ، سلام کو خط میں تحریر کردہ باتوں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے خط میں چھوٹے چھوٹے جملوں کے بیچ میں عربی میں ’’واو‘‘ اور ارد ومیں ’’اور‘‘ لاتے ہیںاور جب اُس نے آخری جملے کو واو پر ختم کیا اور کہا: والسلام علیکم تو عربی داں طبقہ جانتے ہیں یا جانیں گے کہ اس نے مکتوب الیہ کو پہلے سلام کیا پھر مقصد ِتحریر بتایا اور اخیر میں دوبارہ نیا سلام کیا تو سلام میں تجدیدی معنی پیدا ہوگئے اور یہ بغر واو کے ممکن نہیں؛ ابن قتیبہؒ کی رائے یہ ہے: کہ والسلام علیکم میں واو کے ذریعہ پہلے والے سلام پر عطف ڈالا گیا ہے، ابن قیمؒ نے اِس رائے کی تردید کی ہے اور اِس کی وجہ یہی بتائی ہے کہ اس صورت میں تجدیدی معنی پیدا نہیں ہوںگے، دونوں ایک ہی سلام ہوجائیں گے تودوبارہ سلام کرنے سے فائدہ کیا ہوا، التاسیس أولی من التاکیدقاعدہ مشہور ہے؛ اِس لیے اول الذکر رائے کے بارے میں ابن قیمؒ نے وہذا أحسن من قول ابن قتیبۃ کہا ہے۔(بدائع الفوائد بحذف وزیادۃ:۲؍۱۵۶) اللہ کا انبیاء یا اہلِ جنت کو سلام کرنے کا مطلب --- اشکال وجواب روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورُسُل کو سلام کیا ہے،اِسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کو سلام کریں گے، ان لوگوں کو سلام کرنے کا کیا مطلب ہے اور کیا حکمت ہے؛ کیوں کہ معلوم ہوچکا ہے کہ سلام یہ سلامتی کی دعا ہے، یعنی جسے سلام کیا جاتا ہے، اُس کے لیے سلامتی کی درخواست، خداوند قدوس سے کی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ طلبِ سلامتی کا معنی اللہ رب العزت کے حق میں کیسے صحیح ہوگا؛ کیوں کہ ہم بندے اللہ سے کسی چیز کی درخواست کرتے ہیں، اللہ کیسے اور کسی سے درخواست کریں گے؟ (خواص کے لیے) اِس میں کوئی شک نہیں کہ طلب ودرخواست کے لیے تین باتیں ضروری ہیں؛ بلکہ رکن ہیں، طالب، مطلوب اور مطلوب منہ(۱) یہ تینوں باتیں جب ہوں گی جب ’’طلب‘‘ کا وجود ہو مثلا: آپ نے سلام کیا تو آپ طالب ہوئے، دعائِ سلام مطلوب ہوا اور اللہ تعالیٰ کی ذات مطلوب منہ ہوئی، اِس سے معلوم ہوا: کہ طالب اور مطلوب منہ الگ الگ ہوتے ہیں؛ لیکن کبھی طالب اور مطلوب منہ دونوں ایک ہی ہوتے ہیں،اِس صورت میں طلب کا وجود دوہی رکن سے ہوتاہے: طالب اور مطلوب، اور طالب ومطلوب منہ کا اتحاد نا ممکن نہیں ہے؛ بلکہ ممکن ہے، دیکھیے انسان کا نفس، انسان کو کبھی نیکی کا حکم دیتا ہے، کبھی بدی سے روکتا ہے، انسان کا نفس کبھی گناہوں پر ابھارتا ہے اور انسان اُس کے مطابق کبھی کام کرلیتا ہے، تو انسان اور نفس دونوں ایک ہی ہیں، انسان نے اپنے آپ کو حکم دیا، اپنے آپ کو روکا، ارشاد خداوندی ہے : إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَۃٌ بِالسُّوء ِ (۲) دوسری جگہ ہے: وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَی۔(۳) تو نفس انسانی آمر ومامور دونوں ہوا، معلوم ہوا کہ ایک ہی شخص طالب اور مطلوب منہ ہوسکتا ہے، اب حاصل یہ