اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے سلام کیا پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ نکالے اور کہا کہ میں نے انہیں دونوں ہاتھوں سے حضورﷺ سے بیعت کی تھی۔(الادب المفرد،رقم: ۹۰۸، باب تقبیل الید) اس روایت میں دونوں ہاتھوں سے بیعت کا تذکرہ ہے(۱) اس سے مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیوں کہ بیعت میں در حقیقت مصافحہ ہی ہوتا ہے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضورﷺ عورتوںکو ہاتھوں کے ذریعہ بیعت نہیں کرتے تھے؛ بلکہ زبان سے کہہ دیتے تھے کہ میں نے بیعت کرلی، ایک مرتبہ کچھ عورتیں حضورﷺ کے پاس بیعت کی غرض سے آئیں آپ نے زبانی بیعت کرلی،اُن عورتوں میں ا یک حضرت امیمہ بنت رقیقہ تھیں اُن کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺسے عرض کیا یا رسول اللہ بایِعنَا تعنی صافحنا (۲) غور فرمائیں انہوں نے بیعت کو مصافحہ سے تعبیر کیا، شیخ الحدیث مولانا زکریاصاحب ؒنے الدر المنثور کے حوالے سے یہی روایت اِن الفاظ میں نقل کی ہے، أتیت النبيﷺ في نساء لنبایعہ ’’الحدیث‘‘ وفیہ قلنا: یا رسول اللہ ألا تصافحنا؟ قال: إني لا أصافح النساء۔(اوجز: ۱۶؍۱۳۱) (۱) اگر یہ روایت صحیح ہے تو پھر مصافحہ دو ہاتھوں سے مسنون ہے، پر استدلال بہت آسان ہو گا اور یہ بات غیر مقلدین حضرات کو بھی تسلیم کرنی پڑے گی،صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں: لأن المصافحۃ عند اللقاء والمصافحۃ عند البیعۃ متحدتان في الحقیقۃ ولم یثبت تخالف حقیقتہما بدلیل أصلا۔ (۷؍۴۳۲) ورنہ مذکورہ روایت کا کیا جواب ہوگا؟ (۲) مشکوٰۃ:۲؍۳۵۴۔ مذکورہ روایتوں سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرامؓ میں یہ بات مشہور تھی کہ بیعت میں مصافحہ ہوتا ہے اوروہ دونوں ہاتھوں سے ہوتا ہے، مزید وضاحت حضرت عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ کی شرح سے ہوتی ہے: حضرت عائشہؓ کی ایک روایت ہے کہ حضورﷺ عورتوں سے بیعت کے وقت کہتے تھے، بایعتکِ کلاماً یکلمہا بہ واللہ ما مست یدُہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ۔(۱) شارح بخاری علامہ قسطلانیؒ اِس کی شرح میں لکھتے ہیں: أي بالکلام لا بالید کما کان یبایع الرجال بالمصافحۃ بالیدین یعنی حضورﷺ کی عورت سے بیعت گفتگو سے ہوتی تھی نہ کہ ہاتھ سے جیسا کہ آپ مردوں کو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے ذریعہ بیعت کرتے تھے۔(ارشاد الساری:۷؍۳۸۱) الغرض: مصافحہ چاہے عند الملاقاۃ ہو یا بیعت میں ہو دونوں ہاتھوں سے معروف ومشہور تھا۔ نوٹ: مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی حل ہوجاتی ہے کہ جن روایتوں میں بیعت یا مصافحہ کے سلسلے میں لفظ ’’کف‘‘ یا ’’ید‘‘ کاتذکرہ ہے وہاںکف اور ید سے جنسِ کف اور جنسِ ید مراد ہے، ایک ہاتھ یا ایک کف مراد نہیں ہے؛ کیوں کہ سلمہ ابن الأکوع رضی اللہ عنہ کی بیعت والی روایت میں یدین کی صراحت ہے؛ حالاں کہ اسی روایت میں آگے ہے فأخرج کفاً لہ ضخمۃ، کأنہا کف بعیر، فقمنا إلیہ فَقَبَّلْنَا۔ اب اگر یہاں ’’کفاً‘‘ سے جنس کف یعنی دونوں کف مراد نہ ہوں تو فأخرج یدیہ فقال بایعت بہاتیناور فأخرج کفاً لہ میں تعارض ہوجائے گا، شیخ الحدیث مولانازکریا صاحبؒ کی عبارت کا یہی خلاصہ ہے: لکھتے ہیں: فعُلم من روایۃ البخاري في ’’الأدب‘‘ أن ما ورد في بعض الروایات عند البیعۃ أو المصافحۃ لفظ ا لکف أو الید فالمراد بہما