اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محبت حاصل ہوگئی وہ واقعی طالب علم کہلائے جانے کے لائق ہے، حضورﷺ نے افشاء سلام کو محبت کا ذریعہ قرار دیا ہے، کیا اس سے انکار کرنا ممکن ہے؟ حدیث پڑھیے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت ویگانگت پیدا ہوجائے (وہ یہ ہے کہ) سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔(شعب الایمان،رقم:۸۷۴۵) معلوم ہوا کہ اہل ایمان کی باہمی محبت ومودت کا دارومدار سلام پر ہے اور سلام کرنے اور اُس کا جواب دینے سے یہ محبت ومودت دلوں میں پیدا ہوتی ہے، اب غور کیجیے ،اگر وہ اہل ایمان ایسے دو فریق ہوں جن کا مقصد ہی ایمان واسلام کی ترویج واشاعت ہے، تو سلام کے ذریعہ اُن کی محبت کیا رنگ لائے گی، اندازہ مشکل نہیں، آسان ہے، شاگرد اِس نیت سے استاذ کو سلام کرے گا تو استاذ کی دعائیں ملیں گی، اُس کی توجہ اور نظرِ شفقت کا مستحق ہوگا، اُس کی دنیا بدل جائے گی۔ اِس تفصیل کی ضرورت اِس لیے پڑی کہ موجودہ زمانے میں مدارس میں استاذ وشاگرد کا رشتہ دم توڑرہا ہے، اساتذہ وطلبہ، شیروشکر ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے مد مقابل ہوگئے ہیں، دونوں کے درمیان قربت کے بجائے، فاصلے بڑھتے ہی جارہے ہیں، شاگرد سے خلوص ختم ہوا وہ استاذ کو ملازم سمجھنے لگا، استاذ سے اخلاص ختم ہوا وہ شاگردوں کو قوم و ملت کی امانت نہیں؛ بلکہ ٹائم پاس اور معیشت فقط کا ذریعہ سمجھنے لگا، إلا ما شاء اللّٰہ والا من شاء،بعض طلبہ کہتے ہیں :کہ اب اساتذہ، اساتذہ نہیں رہے، یہ کلیہ تسلیم کرلیا جائے یا یہ کہہ لیا جائے کہ طلبہ کی نظر اب طلبہ کی نظر نہیں رہی، فیصلہ قارئین کریں، کمی دونوں طرف سے روز افزوں ہے، قصور کس کا کتنا ہے، یہ طے کرنے کا موقع نہیں اور اِس کا کوئی فائدہ بھی نہیں، بس ضرورت اور وقت متقاضی اِس بات کے ہیں کہ یہ رشتہ پھر سے اُستوار ہو اورسدا سلامت رہے، اِس کی آبیاری کے لیے، اور اس کی سلامتی کے لیے سلام کی ترویج واشاعت کھاد ، پانی اور دیگر میٹریل سے زیادہ مؤثر اور دیر پا ہے، دیر ہماری طرف سے ہے، آئیے ہم اساتذہ اور طلبہ مل کر آپس میں سلام کو خلوص واخلاص کے ساتھ رائج کریں، نتیجۂ محبت خدا پر چھوڑ دیں، وہ کوشش کرنے والوں کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا۔ بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ ٭ انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کر کے دیکھ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: دوسری بات ضروری سمجھنے کے قابل یہ ہے کہ جب واسطۂ نعمت کی شکر گزاری بھی ضروری ٹھہری، یہاں سے استاذ وپیرو غیرہما کا حق بھی نکل آیا کہ یہ لوگ نعمتِ حقیقی ،علم دین وعرفان ویقین کے واسطے ہیں، سو جتنی بڑی نعمت ہوگی اتنا ہی واسطۂ نعمت کا بھی حق ہوگا۔اِس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ استاذ وپیر کا حق کتنا بڑا ہے، افسوس اس زمانے میں یہ دونوں علاقے ایسے کمزور ہوگئے ہیں کہ کوئی ان کی وقعت نہیں رہی۔