اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
درود بھیجیں اور اِس کے ساتھ ساتھ ’’سلام‘‘ بھی کثرت سے بھیجیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے احکام بیان کیے ہیں؛ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں، دورد کو ایک ایسا اعزاز حاصل ہے کہ اللہ نے فرمایا میں بھی یہ کام کرتا ہوں اور فرشتے بھی؛ البتہ ہمارے درود اور اللہ کے درود میں فرق ہے، اللہ کے درود بھیجنے کا مطلب حضورﷺ کو مقام محمود تک پہنچانا ہے اور فرشتوں کے درود کا مطلب حضورﷺ کے درجات کی زیادتی کی دعا کرنا ہے اور حضور کی امت کے لیے استغفار کرنا اور مومنین کے درود کا مطلب، حضورﷺ کی پیروی اور اُن کے ساتھ محبت اوراُن کے اوصاف جمیلہ کاتذکرہ اور تعریف۔ ( روح المعانی:۱۱؍۲۵۲) حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: کہ مجھ سے بعض لوگوں نے یہ اشکال کیا کہ آیت شریفہ میں صلاۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے، سلام کی نہیں کی گئی ہے؟ میں نے اِس کی وجہ بتائی کہ شاید اس وجہ سے کہ سلام دو معنی میں مستعمل ہوتا ہے ایک دعا میں، دوسرے انقیاد واتباع میں، مومنین کے حق میں دونوں معنی صحیح ہوسکتے تھے، اس لیے اُن کو اِس کاحکم کیا گیا اور اللہ اور فرشتوں کے لحاظ سے تابعداری کے معنی صحیح نہیں ہوسکتے تھے اس لیے اس کی نسبت نہیں کی گئی۔(فتح الباری:۸؍۵۳۳) لیکن اللہ تعالیٰ کو جیسے درود پسند ہے اسی طرح حضورﷺ پر سلام بھیجنا بھی بہت پسند ہے؛ چناں چہ اللہ رب العزت نے ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ آپ روضۂ اقدس کے پاس سلام کریں تو حضور خود سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں اور دنیا کے کسی کونے میں رہتے ہوئے حضورﷺ پر سلام بھیجیں تو جیسے درود کو پہنچانے کا نظام ہے ویسے ہی سلام پہنچانے کا بھی نظام ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے، درود اور متعلقات درود کے لیے مستقل کتابیں ہیں اُن کا مطالعہ کیا جائے، مولف کی کتاب سلام سے متعلق ہے اس لیے مستقل طور سے ’’سلامِ نبی‘‘ اور اس کے متعلقات کا تذکرہ ہوگا، ضمنا درود کا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے جیسے تمام مسلمانوں کو ’’السلام علیکم‘‘ جیسی بے مثال اور دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے پُر دعا عطا فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ بندے آپسی ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب کے لیے بھی یہ انتظام فرمایا کہ بندے انہیں سلام کریں، دورہیں کیا ہوا وہ سلا م کاتحفہ تیا رکریں، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ وہ سلام آپ تک پہنچا دیں گے اور حضورﷺ پر؛ بلکہ دیگر انبیاء پر ’’سلام‘‘ اللہ کوبہت پسند ہے۔ چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَی آللَّہُ خَیْْرٌ أَمَّا یُشْرِکُون ۔(النمل:۵۹) ترجمہ: آپ کہیے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لے سزاوار ہیں اور اس کے ان بندوں پر سلام ہو جس کواس نے منتخب فرمایا ہے،منتخب بندوں سے مراد انبیاء ورسل ہیں، جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْن۔(الصافات:۱۸۱) لہٰذا ہم مسلمانوں کو حضور پر درود کے ساتھ ساتھ ’’سلام‘‘ کا بھی اہتمام کرنا چاہیے’’سلام‘‘ کے لیے ’’السلام علی رسول اللہ، السلام علی الني‘‘ جیسے الفاظ استعمال کریں اور اگر روضۂ اقدس پر ہیں تو ’’السلام علیک یا رسول اللہ‘‘کہیں یا ’’سلام‘‘ کے جو صیغے منقول