اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رائے یہ ہے کہ حدیث سے قیام تعظیمی کے استحسان پر استدلال درست نہیں، ونازعہ فیہ طائفۃ،منہم ابن الحاج،اور عدمِ صحتِ استدلال کی کئی وجوہات ہیں۔ (۱) قوموا إلی سیدکمسے آں حضرتﷺ کی مراد یہ نہیں تھی کہ حضرت سعدؓ کی تعظیم وتکریم کے لیے کھڑے ہوجاؤ جیسا کہ کسی بڑے آدمی کے آنے پر کھڑے ہونے کا رواج ہے، اور جس کی ممانعت پیچھے گذری ہے کہ یہ چیز عجمیوں کے رائج کردہ تکلفات میں سے ہے، اور صحابہ کو معلوم بھی تھا کہ حضور ﷺقیام کو ناپسند کرتے ہیں؛ بلکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ دیکھو تمہارے سردار آرہے ہیں، ان کی حالت اچھی نہیں ہے، جلدی سے اٹھ کر اُن کے پاس جاؤ اور سواری سے اترنے میں اُن کی مدد کرو؛ تاکہ اترتے وقت اُن کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ حرکت کی بنا پر زخم سے خون نہ بہنے لگے، اِس کا قرینہ یہ ہے کہ اگر مراد تعظیم وتکریم ہوتی تو آپ قوموا إلی سیدکم کے بجائے قوموا لسیدکم فرماتے۔(بذل المجھود:۱۳؍۶۰۱، فتح الباری:۱۱؍۶۲) (۱) غرض الباب علی الظاہر جوازہ ، حاشیہ بذل:۱۳؍۶۰۰، امام بیہقیؒ نے اس روایت کو فصل في قیام المرء لصاحبہ علی وجہ الإکرام والبرکے تحت ذکر کیا ہے،دیکھیے: شعب الایمان:۶؍۴۶۶۔ ایک شبہ: یہاں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ لفظ ’’سید‘‘ اِس پر دال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حضورﷺ نے یہ حکم، قیامِ تعظیمی کے لیے ہی دیا ہو؛ چناں چہ تحفۃ الالمعی میں ہے: یہ شبہ حضرت عمرؓ کے دل میں بھی پیدا ہواتھا، مسند احمد کی مذکورہ روایت (۶؍۱۴۲) میں ہے: فقال عمر: سیدنا اللہ عزوجل! قال: أنزلوہ فأنزلوہ حضرت عمرؓ نے کہا: ہمارے آقااللہ عزَّوجلَّ ہیں! نبیﷺ نے فرمایا ان کو اتارو؛ چناں چہ لوگوںنے ان کو اتارا،اس میں اشارہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے لفظ سید سے قیامِ تعظیمی سمجھا تھا، نبیﷺ نے وضاحت فرمائی کہ تعظیم کے لیے نہیں ؛ بلکہ تعاون کے لیے اٹھنا ہے۔(۶؍۵۲۵) (۲) اگر یہ قیام کاحکم تعظیم کے لیے ہوتا تو انصار کی تخصیص کیوں کی جاتی؟ حکم انصار او ر مہاجرین سب کو ہوتا، اور انصار میں بھی قبیلہ اوس کویہ حکم تھا وہ انھیں کے سردار تھے(۱) ؛ بلکہ شیخ ابن الحاجؒ نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ یہ قیام، اکرام اور اُن کی نیکی کی وجہ سے بھی نہیں تھا، ورنہ حضورﷺ خود کھڑے ہوتے، دیگراکابر صحابہ بھی کھڑے ہوتے(۲) ؛ لیکن علامہ طیبیؒ نے اِس دوسری رائے پر تنقید کی ہے او رکہا ہے: کہ یہ قیام تعظیم کے لیے نہیں تھا؛ لیکن اِس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اکرام کے لیے بھی نہ ہو اور لام إلی کا فرق ضعیف ہے؛ کیوں کہ قوموا إلی سیدکم مطلب ہے قوموا وافشوا إلیہ تلقیا وإکراماً ۔(عمدۃ القاری:۱۵؍۳۷۶) (۳) اور اگر مان لیا جائے کہ یہ قیام اعانت ومدد کے لیے نہیں تھاتو یہ کہا جائے گا کہ حضرت سعدؓ وہاں موجود نہیں تھے، اب وہ آئے تو ان کے لیے کھڑا ہوا گیا اور یہ جائز ہے، لأنہ غائب قدم والقیام للغائب إذا قدم مشروع۔ (فتح الباری:۱۱؍۶۲) (۱) لو کان القیام المامور بہ لسعد ہو المتنازع فیہ لما خص بہ الأنصار،فتح الباری:۱۱؍۶۲۔ (۲) ولو کان القیام المأمور بہ لسعد علی سبیل البر والإکرام لَکَانَ ہو ﷺ أول من فعلہ وأمربہ من حضر من أکابر الصحابۃ(ایضا)