اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محظور: یعنی ایک آدمی از راہ ِتکبریہ چاہتا ہے کہ جب وہ آئے تو لوگ اُس کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ مکروہ: ایک آدمی کی یہ عادت تو نہیںہے کہ لوگ اُس کے لیے کھڑے ہوں، اور وہ متکبر بھی نہیں ہے؛ لیکن کھڑا ہونے والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کے واسطے کھڑے نہیں ہوئے تو کچھ نقصان ہوسکتا ہے؛ پس وہ کھڑا ہوگیا۔ جائز: کسی کی نیکی سے متاثر ہو کر اُس کے اعزاز واکرام میں کھڑے ہوجانا؛ جب کہ اُس کی طرف سے کھڑے ہونے کی کوئی خواہش وارادہ نہیں۔ مندوب: کوئی سفر سے آیا تو مارے خوشی کے سلام ومصافحہ کے لیے کھڑے ہوجانا، یا کسی کو کوئی نعمت ہاتھ آگئی، اس کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑے ہونا یا کوئی مصیبت آن پڑی تو تسلی ودلاسہ کے لیے کھڑے ہوجانا۔(عمدۃ القاری:۱۵؍۳۷۶) مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب کے افادات میں ہے: کسی کا کسی کے لیے کھڑا ہونا دو طرح پر ہوتا ہے: ایک : تعظیم کے لیے، دوسرا انبساط وفرحت کے طور پر، پھر قیام تعظیمی کی دو صورتیں ہیں: ایک: مسلسل کھڑے رہنا یعنی جب تک بڑا مجلس میں رہے، لوگ کھڑے رہیں، دوم: کھڑے ہو کر بیٹھ جانا یعنی جب بڑا آگے آئے تو لوگ کھڑے ہوجائیں، پھر جب وہ بیٹھ جائے تو لوگ بھی بیٹھ جائیں، یہ دونوں صورتیں ممنوع ہیں، پہلی صورت مکروہ تحریمی ہے اور دوسری صورت اُس سے کم مکروہ ہے، رہا انبساط وفرحت کے طور پر کھڑا ہونا، اور آنے والے کو خوش آمدید کہنا تو یہ نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ مستحسن ہے۔(تحفۃ الالمعی:۶؍۵۲۳) ابن وہبانؒ فرماتے ہیں: ہمار ے زمانے میں کسی کی آمد پر کھڑے ہوجانا مستحب ہے؛ کیوںکر ترکِ قیام کے نتیجہ میں کینہ، بغض اور دشمنی جیسی مہلک بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں؛ بالخصوص اگر کوئی ایسی جگہ ہوجہاں قیام کی عادت ہو، اور رہ گئی بات قیام پر وعید کی تو وہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کسی کے سامنے قیام کو واجب سمجھتے ہوں۔ وفي عصرنا ینبغي أن یستحب ذلک أي القیام لما یورث ترکہ من الحقد والبغضاء والعداوۃ لا سیما إذاکان في مکان اعتید فیہ القیام۔ (رد المحتار:۹؍۵۵۱) علامہ نوویؒ لکھتے ہیں: ایسا شخص جس میں کوئی ظاہری فضیلت کی بات ہو مثلا: علم، صلاح وتقویٰ یا عدل وانصاف یا کوئی قریبی رشتہ داری ہو تواُس کے اعزاز واکرام میں کھڑے ہوجانا مستحب ہے اور دکھاوا اور بڑائی کے طور پر ناجائز ہے، اور اخیر میں لکھتے ہیں: وعلی ہذا الذي اخترناہ استمر عمل السلف والخلف۔کہ سلف وخلف سے یہی معمول منقول ہے۔ (الاذکار:۳۰۵) مولانا یحییٰ مرحوم لکھتے ہیں: قیام فی نفسہ جائز ہے، ہاں جب کوئی وجہ ِکراہت پیدا ہوجائے تو مکروہ ہے۔(الأبواب والتراجم:۶؍۳۵۳)(۱) ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں: قیام علی سبیلِ الإعظام مکروہ ہے اور علی سبیل الإکرام جائز ہے، اکرام کا مطلب ہے سلام ومصافحہ کے لیے کھڑا ہونا، یہ قیام محبت میں اضافہ کا باعث ہے اور اِعظام کا مطلب ہے مسلسل کھڑے رہنا۔ (مرقاۃ::۹؍۸۳)