اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲۷۳۴، باب ماجاء فی المعانقہ) تشریح: معلوم ہوا کہ سفر سے آنے والے کے ساتھ معانقہ اور تقبیل بلا کراہت جائز ہے اور تقبیل کا مطلب ہے ہاتھ وپیشانی چومنا۔ (۲) اور آپ کا بدن کھلا تھاکا مطلب ہے، کرتے کی جگہ جو چادر آپ زیب تن فرماتے تھے وہ چادر نہیں تھی، اوپر کا آدھا بدن کھلا ہوا تھا اور یہ کمالِ خوشی کی وجہ سے تھا۔ (۳) حضرت ایوب بن بُشَیرؒ بنو عنزہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ُاس نے کہا: میں نے ابوذرؓ سے پوچھا، جب آپ لوگ، رسول اکرمﷺ سے ملاقات کیا کرتے تھے تو کیا حضورﷺ آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے، حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: کہ میں نے جب بھی (۱) اِس پر اشکال اُس روایت سے ہوتا جو حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے، وہ روایت آگے آرہی ہے، اس روایت سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ وہ سفر میں نہیں گئے تھے، پھر بھی حضور نے معانقہ کیا، حضرت ابوذر کا گھر پر موجود نہ ہونا، سفر میں ہونے پر دال نہیں ہے، اور حضرکا ہونا اصل ہے، فتاوی ریاض العلوم: ۲؍۱۷۰۔ (۲) مظاہر حق:۵؍۳۷۲۔ نبی کریمﷺ سے ملاقات کی تو آپ نے مجھ سے (۱) مصافحہ کیا(ایک دن کا واقعہ ہے) حضورﷺ نے مجھے بلانے کے لیے میرے پاس (ایک شخص) کو بھیجا، اُس وقت میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا، جب میں گھر میں آیا تو مجھے اِس کی اطلاع دی گئی؛ چناں چہ میں آپ کی خدمت میںحاضر ہوا، آپ اُس وقت ایک تخت پر جلوہ افروز تھے، آپ نے مجھے گلے لگایا اور یہ گلے لگانا (حصولِ لطف وسرور اور برکت کے اعتبار سے) مصافحہ کی بنسبت بہتر تھا، بہت بہتر تھا۔ (ابوداؤد، رقم:۵۳۱۴، باب فی المعانقہ) تشریح: اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر سے آنے کے علاوہ دوسری حالتوں میں بھی اظہارِ محبت وعنایت کے پیش نظر معانقہ کرنا جائز ہے، اور یہ واقعہ اظہارِ محبت کے لیے ہی تھا؛یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے اِس معانقے کو مصافحہ بلکہ ہر چیز سے بہتر قرار دیا؛ کیوں کہ مصافحہ میں تو صرف ہاتھ مس ہوتا ہے،یہاں گلے کا گلے سے مس ہوگیا تو روحانیت وراحت دونوں کا حصول ہوا۔ (۴) حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ سرزمین حبشہ سے واپسی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ ہم حبشہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ کر رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ملاقات کی آپ نے مجھ کو گلے لگایا اور فرمایا: میں نہیں کہہ سکتا کہ میں خیبر کی فتح سے زیادہ خوش ہوں یا جعفر کے واپس آنے کی وجہ سے اور اتفاق سے حضرت جعفرؓ اسی دن آئے تھے جس دن خیبر فتح ہوا تھا۔(شرح السنۃ:۱۱؍۲۹۱، باب المصافحۃ وفضلھا) یہ وہی حدیث ہے، جس کوحضرت امام شافعیؒ کے شیخ اور استاذ حضرت سفیان ابن عیینہؒ نے امام مالکؒ کو سنائی تھی، جب امام مالک ؒنے کہا تھا کہ معانقہ بدعت ہے، اور دلیل دی تھی کہ یہ حضرت جعفرؓ کے ساتھ ایک خصوصی برتاؤ تھا، یہ امام مالکؒ کا ابتدائی قول تھا، بعد میں انہوں نے رجوع کرلیا تھا؛ چناں چہ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒنے لکھا ہے: وروی عنہ ما یدل علی أنہ رجع عن القول بالکراہۃ۔(۲) اورعلامہ نوویؒ نے بھی