اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علامہ نووی ؒاپنی دوسری کتاب’’الأذکار‘‘ میں لکھتے ہیں: اعلم أنہا سنۃ مجمع علیہا عند التلاقي۔(ص:۳۰۲) اسی کے حاشیہ میں ہے: والمصافحۃ عند التلاقي سنۃ بلا خلاف۔ یعنی مصافحہ کی سنیت متفق علیہ مسئلہ ہے، اِس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ شرح ابن بطال میں ہے: المصافحۃ حسنۃ عند عامۃ العلماء۔(ص:۹؍۴۸) (۲) حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم لوگ نبی کریمﷺ کے ساتھ تھے اور آپ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے وھو أخذ بید عمر بن الخطابؓ۔ (بخاری،رقم: ۶۲۶۴) تشریح: ہاتھ پکڑنا کس لیے تھا؟ علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: فإنہ ہو المصافحۃ۔ (عمدۃ ا لقاری:۱۵؍۳۷۷) ابن حجرؒ لکھتے ہیں: أن الأخذ بالید یستلزم التقاء صفحۃ الید بصفحۃ الید غالباً۔(فتح الباری:۱۱؍۶۷) یعنی أخذ یدمصافحہ سے کنایہ ہے؛ کیوں کہ ہاتھ پکڑنا ہاتھ کے رخ کا دوسرے کے ہاتھ کے رخ سے ملنے کو مستلزم ہے اور مصافحہ کے لغوی معنی یہی ہیں، نیز امام بخاریؒ نے اِس روایت کو باب المصافحۃ کے تحت ذکر کیا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ أخذ ید کا مطلب یہاں مصافحہ ہی ہے؛ لہٰذا یہ مصافحہ کی مشروعیت کی دلیل ہوئی۔ (۳) أخرجہ أبو بکر الروباني في مسندہ من وجہ آخر عن البراء: یعنی حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نبی کریمﷺسے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مصافحہ کا شرف بخشا، تو میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کنت أحسب أن ہذا من زي العجم یعنی میں مصافحہ کو عجمیوں کا طریقہ اور تہذیب سمجھتا تھا تو آپ نے فرمایا: نحن أحق بالمصافحۃکہ مصافحہ کے ہم زیادہ حق دار ہیں؛ کیوں کہ یہ مغفرت کا ذریعہ ہے۔(فتح الباری:۱۱؍۶۶) نحن أحق بالمصافحۃ اور صافحنيمشروعیت کی دلیل ہے۔ (۴) سرکار دو عالمﷺ کا مصافحہ کا معمول: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے نبی کریمﷺ کے مصافحہ کے بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: ما لقیتہ قط إلا صافحني کہ میری جب بھی آپ سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے ضرورہی مصافحہ کیا۔(ابوداؤد:۵۲۱۴، باب فی المعانقۃ) اس حدیث سے آں جناب ﷺکے مصافحہ کرنے کا معمول معلوم ہوتا ہے۔ (۵) حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: کہ ایک سائل نے آں جنابﷺ سے پوچھا کہ کیا اِس کی اجازت ہے کہ کوئی اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملے تو، اُس کا ہاتھ پکڑے اور اُس سے مصافحہ کرے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اِس کی اجازت ہے۔(ترمذی،رقم: ۲۷۲۹، ما جاء فی المصافحۃ) (۶) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: من تمام التحیۃ الأخذ بالیدیعنی دعا وسلام کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے جب مصافحہ بھی کیا جائے۔ (ترمذی: ۲۷۳۱، فی المصافحۃ)