اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
معاشرہ کے لیے ناگزیر امر ہے، محبت کے بغیر زندگی کا سفر ناتمام رہتا ہے، اور اِس سفر کی منزل نفرت وعداوت پر ختم ہوتی ہے، اور اِس منزل پر انسانیت کی آبادی ختم ہو کر، شیطانیت وحیوانیت کی آبادی شروع ہوتی ہے، اور اُخروی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں مصافحہ کر کے دعائِ مغفرت کرتے ہیں تو اُن کی مغفرت ہوجاتی ہے، گویا مصافحہ کرنے والے کے دونوں ہاتھ میں لڈو ہوتے ہیں، اُس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں؛ اسی لیے اسلام اور پیغمبرِ اسلام نے اِس شعبہ پر خاص توجہ دی ہے اوراس کے مستقل فضائل واحکام بیان کیے گئے ہیں۔ آج پوری دنیا میں مصافحہ کا رواج ہے، اور وہ بھی اظہار ِ محبت کے لیے ہوتا ہے؛ لیکن اُن کے مصافحہ کو اسلامی مصافحہ نہیں کہا جاتا ہے، اُسے ہاتھ ملانا کہاجاتا ہے، ان کا مصافحہ، روح سے خالی ہوتا ہے، مصافحہ کی روح، اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی درخواست کرنا ہے، وہ کسی معاہدہ کی تکمیل پر ہاتھ ملاتے ہیں، کسی جیت پر ہاتھ ملاتے ہیں، اور ہم آخرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصافحہ کرتے ہیں، نبی کریمﷺ سے لے کر آج تک پورے اسلامی ممالک میں اِس کا رواج ہے، ذیل میں مصافحہ کے ثبوت کے سلسلے کی روایتیں اور عبارتیں ذکی کی جاتی ہیں؛ تاکہ اس کی اہمیت وافادیت کا اندازہ لگایا جاسکے۔ مصافحہ کے ثبوت میں اکثر محدثین نے مستقل باب ’’باب المصافحہ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے اور اِس کے تحت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت تقریبا اکثر محدثین نے بیان کی ہے۔ (۱) حضرت قتادہؒ کہتے ہیں: کہ میں نے حضرت انسؓ سے پوچھا:کیا حضورﷺ کے صحابہ کرامؓ میں مصافحہ کا رواج تھا تو حضرت انس ؓنے جواب دیا ہاں۔(بخاری، رقم: ۶۲۶۳) سوال کا منشا یہ تھا کہ ملاقات کے وقت سلام کے بعد، محبت والفت میں اضافہ کی خاطر صحابہ کرامؓ آپس میں مصافحہ کرتے تھے یا نہیں؛بالخصوص صحابہ کا معمول پوچھا؛ کیوں کہ معلوم تھا کہ اگر صحابہؓ کرتے تھے تو یقینا نبی کریمﷺ کی اقتداء میں کرتے ہوں گے، حضورﷺ کو مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا ہوگا، اور صحابہ کرامؓ معیار حق ہیں، وہ جو کریں گے یقینا اتباعِ رسول میں ہی کریں گے۔ عمدۃ القاری میں ہے: وقد قال أنس: کانت المصافحۃ في أصحاب رسول اللہﷺ، وہم الحجۃ والقدوۃ للأمۃ ثم أتباعہم وقد ورد فیہا آثار حسان۔ (۱۵؍۳۷۷) بخاری کی اس روایت کو علامہ نوویؒ نے ریاض الصالحین میں بھی ذکر کیا ہے، اس کی شرح نزھۃ المتقین میں ہے: أفاد الحدیث: مشروعیۃ المصافحۃ؛ لأنہا کانت موجودۃ فیما بین الصحابۃ رضي اللہ عنہم، وہذا إجماع سکوتي، وہو حجۃ۔(۱؍۵۹۵) یعنی اس حدیث سے مصافحہ کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے؛ کیوں کہ صحابہ میں اِس کا رواج تھا؛لہٰذا مصافحہ کی مشروعیت پر اجماعِ سکوتی ہے اور یہ ایک مستقل دلیل ہے۔