اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے وضو میں فرائضِ وضو کی ترتیب وہی رکھی جو قرآن نے بیان کی یعنی پہلے چہرہ، پھر ہاتھ پھر سر پھر پیر؛ کیوں کہ قرآن میں یہی ترتیب ہے، اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ترتیب قرآنی کا لحاظ فرمایا کرتے تھے، اِس کے باوجود نماز کے اندر، ترتیبِ قرآنی کا لحاظ نہیں فرمایا، اِس کی کیا حکمت ہے؟ابن قیمؒ لکھتے ہیں: نماز، عبودیت کے اظہار کا اعلیٰ درجہ ہے، نماز میں عُبودیت قلب کے ساتھ ساتھ، تمام ظاہری اعضاء وجوارح کی عبودیت ظاہر ہوتی ہے، جب ایک بندہ اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اُس کا ظاہر اور باطن دونوں مکمل طور سے عبودیت کا اظہار کرتے ہیں، جب اِس عبودیت وتَذَلُّل کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز اختتام کو پہنچتی ہے، تو جیسے ایک ذلیل اور بے قیمت بندہ اپنے مجازی آقاکے سامنے انتہائی عاجزی وذلت کے ساتھ بیٹھتا ہے؛ اُسی طرح نمازی کو حکم ہواکہ وہ بھی اختتام صلاۃ پر اپنے حقیقی آقا کے سامنے انتہائی ادب، عاجزی اور خضوع وانکساری کے ساتھ بیٹھ جائے؛ تاکہ ُاس سے خشیتِ خداوندی کا اظہارہوسکے، اب چوں کہ کسی بادشاہ کے پاس لوگ آتے ہیں تو تحیہ وسلام پیش کرتے ہیں، اعلیٰ قسم کی تعریف کرتے ہیں، خداوند قدوس تمام بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، اُن کے (۱) البقرۃ: ۱۵۸۔ سامنے ایک ادنی بندہ بیٹھا ہوا ہے تو اُسے حکم ہوا کہ وہ بارگاہِ خداوندی میں انتہائی اعلیٰ قسم کی تعریف وثناء پیش کرے؛ چناں چہ التحیات للہ والصلوات والطیباتکے ذریعہ وہ خدا کی تعریف کرتا ہے کہ قولی، بدنی اور مالی جتنی عبادتیں اور اُس کی قسمیں ہوسکتی ہیں سب خداوند قدوس کے لیے سزاوار ہیں؛ گویا اِن الفاظ کے ذریعہ بندہ نے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنا ’’سلام‘‘ پیش کیا، جب یہ ’’سلام‘‘ ہوچکا تو اُس ذات کو ’’سلام‘‘ کرنے کا حکم دیا گیا، جس کے واسطے سے ہمیں یہ نماز؛ بلکہ ہر قسم کا خیر ملا، تو اب السلام علیک أیہا النبيکے ذریعہ نبی کریمﷺ کو ’’سلام کیا گیا پھر رحمت وبرکت کی دعا سے اِس سلام کی تکمیل کرائی گئی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر اُسے حکم ہوا کہ اپنے اوپر سلام بھیجو کہ تمہیں بھی سلامتی کی ضرورت ہے، پھر کہا گیا :کہ اللہ کے جو نیک بندے باقی رہ گئے ہیں انہیں بھی سلام کیا جائے السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین،گویا جناب خداوندی میں سب کو سلام کیا گیا، لفظ ’’سلام‘‘ سے خدا کو سلام نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ ’’سلام‘‘ تو خدا کا نام ہے اس لیے وہاں التحیات (جمع کے ساتھ) لایا گیا؛ تاکہ تحیات میں عموم واستغراق رہے، اور بقیہ میں لفظ ’’سلام‘‘ ذکر کیا گیا، سلام کے بعد اِس اہم مقام کو اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی شہادت پر ختم کرنے کا حکم ہوا، أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔ اب اللہ کی تعریف اور اس کی ثنا مکمل ہوئی۔ اب اس بندے کو دعا کرنی ہے، تشہد میں دو چیزیں بنیادی ہیں: ایک دعائِ ثنا، دوسرے دعاء طلب وسوال، اور اِن دونوں میں دعائِ ثنا اہم اور اشرف ہے؛ کیوں کہ یہ خداوند قدوس کا حق ہے اور دوسری دعا یعنی طلب اور سوال یہ بندے کا حصہ ہے تو التحیات میں پہلی قسم کی تکمیل ہوئی، دوسری قسم کو اب شروع کرنا ہے، فیصلہ یہ کرنا ہے کہ طلب وسوال میں اہم اور انفع اور عظیم الشان فائدہ کیا ہے، اسلامی عقل وخرد کا فیصلہ یہی ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے پیارے رسول پر درود کی درخواست ہے؛ کیوں