اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا، جب وہ شخص نظروں سے اوجھل ہونے کے قریب ہوگیا تو آپ نے تیمم کر کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: أما إنہ لم یمنعني أن أرد علیک إلا أني کنت لست بطاہر یعنی بے وضو ہونے کی وجہ سے میں نے جواب نہیں دیا۔( طحاوی: ۱؍۶۸) حضرت مہاجر بن قنفذرضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کہ وہ حضورﷺ کے پاس آئے جب کہ آپ پیشاب کررہے تھے تو انہوں نے سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وضو فرمایا، پھر آپ نے(اُن کے طِیبِ خاطر کے لیے) معذرت کی؛ کہ میں نے پسند نہیں کیا کہ میں بلا وضو (بلا طہارت) اللہ کا ذکر کروں۔(ابوداؤد، رقم: ۱۷) ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ بلا وضو سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے؛ کیوں کہ یہ سلام ایک ذکر ہے او رذکر با وضو ہونا چاہیے، بہ ظاہر یہ حدیثیں اصل مسئلہ کے خلاف ہیں؛ لیکن دوسری طرف ایسی روایتیں بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ بے وضو اللہ کا ذکر جائز ہے؛لہٰذاسلام وجوابِ سلام بھی جائز ہونا چاہیے، مثلا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے: کان یذکر اللہ علی کل أحیانہ(ابوداؤد: رقم ۱۸) اس حدیث کی شرح میں بذل نامی کتاب میں ہے : المراد من عموم الأحیان حالۃ الطہر والحدث، سواء کان الحدث أصغر أو أکبر إلا أن الأکبر یحجزہ عن قراء ۃ القرآن وأما الحدث الأصغر فلا یمنعہ عن تلاوۃ القرآن وغیرہا من الأذکار۔(بذل المجھود:۱؍۲۲۷) مطلب یہ ہوا کہ حضورﷺ ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے، اِس کے عموم میں بے وضو ہونے کی حالت بھی داخل ہے؛ ان کے علاوہ او ربھی حدیثیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا وضو ذکر جائز ہے؛لہٰذا روایتوں میں تطبیق ضروری ہے ۔ تطبیق اور حل: عام حالات میں تو آپ بے وضو اللہ کا ذکر کرتے تھے؛ حتی کہ افضل الذکر قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے؛ ا لبتہ جنابت کی حالت میں تلاوت نہیںکرتے تھے، اور سلام بھی ایک ذکر ہے؛ پس سلام کا جواب بھی بے وضو دیتے ہوں گے اوراوپر والی روایتوں کی جہاں تک بات ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بے وضو جواب نہیں دینا چاہیے، تواِس کی توجیہ یہ ہے کہ حضورﷺ پر اس موقع پر خاص حالت طاری تھی، جس کی وجہ سے آپ نے بے وضو اللہ کا ذکر ناپسند کیا، سلام کا جواب بھی نہیں دیا؛ کیوں کہ سلام اللہ کی صفت ہے؛ پس وہ بھی ذکر ہے۔ (۲) یا یہ کہ یہ استحباب اور افضلیت پر محمول ہے کہ اگر کوئی سلام کا جواب وضو یا تیمم کر کے دے تو افضل ہے؛ کیوں کہ سلام ایک ایسا ذکر ہے جو کسی وقت کے ساتھ مختص نہیں ہے؛ لہٰذا اگر جواب کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو جوابِ سلام کو تھوڑی دیر مؤخر کرسکتے ہیں؛ تاکہ افضل طریقے سے جواب دیا جاسکے؛ ہاںاگر جواب کے فوت ہونے کا امکان ہو مثلا:ً سلام کرنے والا کہیں جارہا ہے یا کسی اور کام میں مشغول ہونے والا ہے تو بے وضو جواب دینا ضروری ہے۔ (۳) تیسری بات یہ حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ کی روایت او راس جیسی دوسری روایتیں جزئی واقعات ہیں، اُن میں عموم نہیں ہے، اِسی لیے حضورﷺ نے ’’کرہتُ‘‘ فرمایا ہے، اگر بے وضو ذکر نہ کرنے اور سلام کا جواب نہ دینے کا دائمی معمول ہوتا تو آپ ’’ أکرہ‘‘ فرماتے، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: بذل المجھود: ۱؍۲۲۵، معارف السنن: ۱؍۳۲۱، تحفۃ الألمعی: ۱؍۳۵۱، الأذکار للنووي: ۲۸۷۔