اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دنیا میں موجود مختلف ادیان وملل میں، دینِ اسلام ہی ایسا واحد مذہب ہے، جس نے انسان اور انسانیت سے متعلق ہر شعبے میں مکمل اور لائقِ تقلید رہ نمائی فرمائی ہے، تعلیماتِ اسلام کی افادیت وآفاقیت کو کوئی دوسرا مذہب چیلنج نہیں دے سکتا، اسلام نے اجتماع وارتباط اور الفت ومحبت کی جتنی شکلیں بتائی ہیں،اُتنی شکلیں کسی اور مذہب نے نہیں بتائی ، روزانہ پانچ وقت باجماعت نماز، ہفتے میں ایک روز جمعہ کی شکل میں ایک بڑا اجتماع، اور ا س سے بھی بڑا ا جتماع عیدین کے موقع پر، یہ سب اجتماع وارتباط کی اہمیت وافادیت پر دال ہیں۔ آپسی الفت و محبت ، اسلام کا ایک اَبدی پیغام ہے، جو معاشرہ ، سماج اور ملک کی شیرازہ بندی کا ذریعہ ہے، الفت و محبت کے طور طریقے اور اسباب وذرائع مختلف ہوسکتے ہیں؛چناں چہ اسلام کی تعلیم وتربیت اور اخلاق وآداب میں محبت ومودت کے مختلف اسباب وذرائع کی نشان دہی کی گئی ہے؛ تاکہ انھیں اپنا کر الفت ومحبت کی پُرلطف فضا قائم کی جاسکے، بوقتِ ملاقات، اسلامی سلام ، مصافحہ اور معانقہ کی تعلیم، در حقیقت اسی پیغامِ محبت کو عام کرنے کا ایک موثر اِقدام ہے؛ چناں چہ اس پیغامِ محبت کا ایک پُراثر نظام ہے، جس سے مکمل طور سے واقفیت ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ضروری تھا اور ہے کہ اسلامی سلام ومصافحہ کو برت کر،اِس پیغامِ محبت کی اِشاعت میں حصہ لیا جائے، اللہ کے پیارے رسولﷺ کا ارشاد ہے : أفشوا السلام بینکم کہ آپس میں سلام کو رواج دو، اِس کا چلتا ہوا اور ثانوی درجے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نظامِ سلام ومصافحہ کی آیات وروایات، روایتی تشریحات اور فقہی تصریحات کی اشاعت بھی کی جائے، رسائل ومضامین کی شکل میں یا تصنیف وتالیف کی صورت میں یا پھر جدید ذرائع اِبلاغ اختیار کرکے؛ بہرصورت اِس پیغام کو عام وتام کیا جائے، پیشِ نظر تالیف ’’اسلام کا نظامِ سلام ومصافحہ‘‘ اسی مِشن کا ایک چھوٹا ساحصہ ہے اور اسی تحریک کی ایک کڑی ہے۔ تقریبِ تالیف بات ۲۰۰۹ء کے اوائل کی ہے جب راقم الحروف دارالعلوم دیوبند میں شعبۂ تدریب المعلمین (معین مدرسی)سے وابستہ تھا،اُس وقت راقم نے پندرہ صفحات پر مشتمل ایک مضمون بنام :’’سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ‘‘تیار کیاتھا،جو ماہنامہ’’ ریاض الجنۃ‘‘دسمبر ۲۰۰۹ء تا فروری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں قسط وار اور ماہنامہ ’’ترجمانِ دیوبند‘‘ کے شمارہ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ مطابق جنوری ۲۰۱۰ء میں پورا مضمون شائع ہوا، اُس وقت اِس تعلق سے مزید کچھ لکھنے کا تقاضا تھا؛ لیکن ہمت نہ ہوسکی، اگر اُس وقت راقم الحروف سے کوئی یہ کہتا کہ تم کچھ سالوں کے بعد اِس موضوع کی تفصیلی کتاب کا پیشِ لفظ یا مقدمہ تحریر کروگے تو یقین مانیے ، یقین نہیں آتا۔ ۲۰۱۰ء کے اواخر میں مولف تدریسی ملازمت کے بہانے دارالعلوم حیدرآباد پہنچ گیا، یہاں دارالعلوم حیدرآباد میں تصنیف وتالیف کے عمومی ماحول اور یہاں کے کتب خانہ سے استفادہ کی آسانی کی و جہ سے،اُس سابقہ خیال کو مزید تقویت ملی کہ اب اِس