اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم أما بعد! حضور اکرمﷺ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ آخری زمانے تک جاری رہنے والی شریعت ہے اور عالمی سطح پر ہر علاقہ ہر ملک کے لوگوں کے لیے یکساں ہے، اسی بناء پر آپﷺ کو خاتم الانبیاء والرسل قرار دیا گیا ہے اور آپﷺ کی شریعت کو بھی مکمل شریعت بتایا گیا ہے، جس میں اب کوئی ترمیم نہیں ہوگی، حضور اکرمﷺ کی لائی ہوئی شریعت مکمل ہے اور سارے انسانوں ، زمانوںاور آئندہ آنے والے انسانوں کے حالات کے لحاظ سے تا قیامت باقی رہنے والی شریعت ہے؛اِس لیے اس سے واقف ہونا اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ انسان مدنی الطبع ہے، اس کی فطرت میں باہمی میل جول اور انس وتعلق داخل ہے، جب وہ ایک دوسرے سے ملتا ہے تو اظہار تعلق کی خاطر کچھ نہ کچھ جملے ضرور ادا کرتا ہے، یہ نہ صرف زمانۂ جاہلیت بلکہ موجودہ دور کی دوسری تہذیبوں میں بھی بوقت ملاقات رائج ہے؛ لیکن ان سب کا مفہوم نہایت محدود؛ بلکہ بسا اوقات مبہم وبے معنی سا لگتا ہے، زمانۂ جاہلیت میں سلام کے بجائے حیاک اللہ یا أنعم صباحاکہنے کا رواج تھا، ہمارے معاشرہ میں بھی بعض مرتبہ السلام علیکم بندگی کہا جاتا ہے اور اس کے جواب میں بڑے بوڑھوں کی زبان پر وعلیکم السلام کے بجائے ’’جیتے رہو‘‘ چڑھا ہوا ہے، یہ کوئی دعا نہیں ہے، جینے کو تو ہزاروں جیلوں اور ہسپتالوں میں بھی جی رہے ہیں؛ لیکن کیا یہ واقعی جینا ہے؟ اسی طرح صبح بخیر میں صرف سلامتی کاتذکرہ ہے، دوسرے اوقات کے بارے میں یہ جملہ خاموش ہے، یہی حال گڈ نائٹ(Good Night)، گڈ ایوننگ(Good Evening)، گڈ آفٹر نون(Good Afternoon) اور گڈ مارننگ(Good Morning) کا ہے، جن میں سے ہر ایک پورے دن کے بجائے ایک خاص وقت کی بہتری اور خوبی کے لیے مخصوص ہے، اور اگر قرائن اور عرف عام کا سہارا نہ لیا جائے تو بظاہر ان الفاظ کا مخاطب سے کوئی جوڑ اور ربط بھی نہیں ہے، نمستے یا نمشکار کا مفہوم اور زیادہ غیر واضح، مبہم اور بے معنی ہے، اس میں کہنے والا مخاطب کی سلامتی کی دعا کرنے کے بجائے اس کی پرستش کی بات کرتا ہے۔ جب کہ اسلام کے متعین کردہ دوبول السلام علیکم نہایت جامع، پر مغز اور باوزن ہیں، اس میں لفظ السلام اسم ہے جو دوام واستمرار کو چاہتا ہے، اس طرح السلام علیکم کہنے والا در اصل یہ کہتا ہے کہ شب وروز کے ہر لمحے اور زندگی کے ہر موڑ پر اور نہ صرف اس دنیائے دوں میں بلکہ قبر وبرزخ اور پھر حشرو نشر کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش تمہارے لیے سلامتی ہو۔قرآن پاک میں سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے: وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا (النساء:۸۶) کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو اُس کا جواب اچھے الفاظ میں دو؛ ورنہ کم از کم اُسی جیسا جواب دو، آپﷺ نے اپنے عمل سے اِس کی وضاحت یہ فرمائی کہ ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السلام علیکم کہا تو جواب میں آپ نے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ فرمایا، پھر دوسرے صحابی آئے اور انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہاتو آپ نے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فرمایا،پھر ایک تیسرے صحابی آئے اور انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آپ نے جواب میں فرمایا وعلیکم، عرض کیا گیا