اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین، محمد بن عبد اللہ الأمین، وعلی آلہ وصحبہ أجمیعن، وعلی من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین!۔ أما بعد!۔ سلام ایک دوسرے سے ملاقات، تعارف ، شناسائی اورتعلق ومحبت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اس روئے زمین پر جب سے انسان آباد ہوئے ،اُسی وقت سے دنیا کی قوموں میں سلام وتحیہ کا رواج ملتا ہے؛ البتہ اُس کے طریقے مختلف رہے، کوئی قوم سینے پر اپنے دونوں ہاتھ باندھ لیتی، کوئی قوم اپنا سر جھکادیتی، کوئی قوم بڑوں کے سامنے سجدہ کرکے ادب وتحیہ کا مظاہرہ کرتی، یہودی قوم سلام کے لیے انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کرتے، نصاریٰ اپنی ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرتے، یعنی سلام کے لیے کوئی لفظ نہیں بولتے، بعد میں اِس کے لیے الفاظ بھی بولنے لگے، انگریزوں نے گڈ مورننگ اور گڈ نائٹ کہنا شروع کیا تو اہلِ ہنود کے یہاں رام رام، نمستے، نمشکار، پرنام، جے رام جی وغیرہ کہا جاتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام کلمات میں کوئی معنویت، کوئی گہرائی اور جامعیت نہیں؛ کیوں کہ یہ سب بندوں کے ایجاد کردہ کلمات ہیں، اِن کے بر خلاف اسلامی سلام یعنی ’’السلام علیکم‘‘ کو دیکھا جائے تو یہ کلمہ بے شمار خوبیوں سے بھرا ہوا ہے، الفت ومحبت، انسیت وتعلق، انسانی تعظیم وتکریم اور خیر اندیشی کے لیے اِس سے زیادہ جامع کوئی کلمہ تصور نہیں کیا جاسکتا، یہ انتہائی جامع دعائیہ کلمہ ہے، یہ اللہ کا انعام ہے، اِس میں سلامتی کی دعا ہے، اِس میں شفقت اور پیار ومحبت بھی ہے، اِ س میں تعلق بھی ہے، تذکیر بھی ہے، اِس میں ایک طرح کا معاہدہ بھی ہے کہ ہماری زبان سے، ہمارے ہاتھ سے آپ کو اذیت وتکلیف نہیں پہونچے گی، اِس میں حسد وکینہ کا ازالہ بھی ہے، آپس کی دوری اور بے گانگی اِس کے ذریعہ ختم ہوجاتی ہے، مَن وتُو کا فرق اٹھ جاتا ہے اور اِس کلمہ میںشرک کی کوئی آمیزش نہیں۔ عزیز محترم مولانامفتی محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی سلمہ کو اللہ تعالیٰ بہت بہت جزاء ِخیر عطا فرمائے کہ انھوں نے ’’اسلام کا نظامِ سلام ومصافحہ‘‘کتاب لکھ کر امت پر بڑا احسان فرمایا، اپنے موضوع پر بہت شاندار کتاب لکھی، سلام ومصافحہ کے تمام مالہ وما علیہ کو بڑے سلیقہ کے ساتھ جمع فرمایا، سلام کی حقیقت، اس کی اِفادیت، اُس کے مواقع، اُس کا ا جروثواب اور اس سے متعلق بے شمار مسائل مستند کتابوں کے حوالوں کے ساتھ یکجا کردیا، یہ کتاب اپنے بہت سے کار آمد عناوین، جاذب نظر مواد اور گراں قدر اوصاف کی حامل ہے، اب تک اس موضوع پر ایسی جامع اور وقیع کتاب نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ عزیز موصوف کی اِس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور اُنھیںاپنی شایانِ شان پوری امت کی طرف سے بہت بہت جزائِ خیر عطا فرمائے، اِس کتاب کے فیض کو اور اِس کی نافعیت کو عام تام بنائے اور عزیز موصوف کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے، آمین ثم آمین۔ حبیب الرحمن خیر آبادی عفا اللہ عنہ مفتی دارالعلوم دیوبند ۶؍ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ