اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر اگر معرفت یا عقیدت ہے تو سلام کے بعد مصافحہ بھی کرنا چاہیے اوریہ تحیۃ المعرفۃ ہے، اس سے سلام کی تکمیل ہوتی ہے اور اگر غایت درجہ معرفت ہے تو مصافحہ کے بجائے معانقہ کرنا چاہیے، معانقہ: مصافحہ کا نعم البدل ہے اور معانقہ کی دعا بھی وہی ہے جو مصافحہ کی ہے، اوراس دعا کے ساتھ کوئی اور دعا بھی کرسکتے ہیں اور مصافحہ او ر معانقہ کوجمع کرنا آبِ زمزم کاپانی پینا ہے۔(تحفۃ الالمعی:۶؍۵۰۲) لیکن فتاویٰ ریاض العلوم میں اِس کے بر خلاف ہے: اگر مصافحہ ومعانقہ دونوں کریں تو مکمل اختیار ہے، خواہ مصافحہ پہلے کریں یا معانقہ، جیسا کہ رواج ہے۔(فتاویٰ ریاض العلوم:۲؍۱۷۲) خلاصہ: اول الذکردونوں بزرگوں کی رائے کا خلاصہ یہ ہے بوقتِ سلام، مصافحہ اور معانقہ میں سے کوئی ایک ہی کرنا چاہیے، اِس صورت میں تقدیم وتاخیر کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا،اور ثانی الذکر فتوے کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرسکتے ہیں اور تقدیم وتاخیر کا اختیار ہے کہ پہلے مصافحہ کریں پھر معانقہ یا پہلے معانقہ پھر مصافحہ۔ تجزیہ: روایتوں سے اِتنا معلوم ہوتا ہے کہ سلام کی تکمیل مصافحہ سے ہوتی ہے، یعنی شریعت نے ملاقات کے وقت صراحۃً جس عمل کو مشروع کیا ہے وہ سلام اور مصافحہ ہے، اب سوال یہ ہے کہ معانقہ سلام کا تتمہ اور اُس کی جنس سے ہے یا نہیں؟ بہ الفاظِ دیگر معانقہ مستقل ایک حکم ہے یا سلام کے تابع ہے؟ روایتوں اور فقہی تصریحات سے اتنی بات طے ہے کہ معانقہ اشتیاق ومسرت اور جوشِ محبت کے مواقع پر جائز ہے یا پھر طویل فصل کے بعد۔ صاحبِ احسن الفتاویٰ اور صاحبِ تحفۃ الالمعی کا نقطہ نظریہ معلوم ہوتا ہے کہ معانقہ، سلام کا تکملہ ہے علی سبیل البدلیت؛ چناںچہ اول الذکر بزرگ نے یہ کہا: سلام کے بعد مزید اظہارِ مسرت ومحبت سے،جس کے دو طریقے علی سبیل البدل مشروع ہیں…اُن دونوں طریقوں میں سے کسی ایک کو تمام التحیہ بنایا جاسکتا ہے، پورا فتویٰ اوپر مذکور ہوا؛ لیکن اُنھوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ دونوں کو جمع کرنے کا واضح ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے، یہ خلافِ سنت معلوم ہوتا ہے۔ اور ثانی الذکر بزرگ نے کہا: کہ معانقہ، مصافحہ کا نعم البدل ہے…اور مصافحہ ومعانقہ کو جمع کرنا آبِ زم زم کا پانی پینا ہے، دونوں کے اقوال میں واضح فرق تعبیر کا ہے، اول الذکر نے، مصافحہ ومعانقہ جمع کرنے کو خلافِ سنت کہا ہے؛ جب کہ صاحبِ تحفۃ الالمعی نے خلافِ سنت نہیں کہا؛ بلکہ ہلکی غلطی شمار کی ہے۔ اور فتاوی ریاض العلوم کے صاحبِ فتویٰ کا نقطہ نظر،یہ معلوم ہوتا ہے کہ معانقہ، سلام کا تتمہ وتکملہ نہیں ہے؛ بلکہ وہ الگ جنس ہے اور مستقل حکم ہے؛ لہٰذا دونوں کو جمع کرسکتے ہیں۔ مولف عرض گزار ہے کہ مذکورہ بالا دونوں قول میں اختلاف، رائے کا اختلاف ہے، جو عملی میدان میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا؛لہٰذا دونوں طرح عمل کی گنجائش ہونی چاہیے؛ لیکن اتنی بات تحقیقی اعتبار سے لائق توجہ ہے کہ امام صاحب اور صاحبین کا مسلک یہ ہے کہ معانقہ ملاقات کے وقت کی سنت اور سلام کا تتمہ ہونے کی حیثیت سے مکروہ ہے جیسا کہ پیچھے اعلاء السنن کے حوالے سے تفصیل سے گذرا ہے؛ لہٰذا یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔