اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گا، عرب میں متوارث بھی یہی ہے کہ پورا جسم الگ رکھ کر صرف گردن سے گردن ملاتے ہیں۔ اور پاکستان وہندوستان کے عوام میں معانقہ کا مُروَّجہ جو طریقہ کہ سینہ کے علاوہ پیٹ بھی ملا دیتے ہیں، اس کا بطریق خصوصیت نبویہ بھی کوئی ثبوت نہیں، علاوہ ازیں اس میں اور بھی کئی مفاسد ہیں، لہٰذا یہ رسم قبیح واجب الترک ہے۔(خلاصہ احسن الفتاوی:۸؍۴۰۷) ایک اور تحقیق: مذکورہ عبارت کا خلاصہ یہ نکلا کہ معانقہ کا مطلب صرف گردن سے گردن ملاناہے، سینہ سے سے سینہ ملانا،معانقہ کا مفہوم نہیں ہے؛ لیکن اس کے بالمقابل ایک دوسری رائے بھی پڑھنے کے قابل ہے، یہ ایک پورا مقالہ ہے جو ’’تیامن کی سنت اور معانقہ کا معہود طریقہ‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ دارالعلوم میں شائع ہوا تھا، مقالہ مفتی رشید احمد فریدی صاحب نے لکھا ہے، اس مقالے کا ایک اقتباس ہے: معانقہ، تعانق اور اعتنق سے مفاعلہ، تفاعل اور افتعال کا مصدر ہے، جس کے معنی ہیں گردن سے گردن ملانا(جیسا کہ مصافحہ کے لغوی معنی ہتھیلی کا ہتھیلی سے ملانا) ہے۔ لغوی حقیقت میں صرف گردن ملانا ہے؛ جب کہ عرفِ شریعت میں اس کی حقیقت محض گردن ملانا نہیں ہے؛ بلکہ (محبت قلبی کے اظہار میں) سینہ سے سینہ ملانا ہے، محدثین نے اپنی کتابوں میں مصافحہ ومعانقہ پر مستقل باب قائم کرکے معانقہ سے متعلق جو احادیث وآثار بیان کئے ہیں، اُن میں تین طرح کے الفاظ واردہوئے ہیں: اعتنقي، ضمَّني، التزمني، پہلے لفظ میں گردن کا ملانا ظاہر ہے، دوسرے لفظ میں سینہ کا ملانا بھی صراحۃ موجود ہے اور تیسرے لفظ میں سینہ کا لگانا اقتضاء ً ہے؛ ا لبتہ پہلا لفظ بابِ مفاعلۃ اور تفاعل سے بھی آثار میں وارد ہے، تینوں کا مصداق ایک ہے یعنی سینہ سے سینہ لگانا جس کو عرف عام میں معانقہ کہتے ہیں۔ آگے مقالہ نگار نے اپنی بات کو مدلل کیا ہے، چند ملاحظہ فرمائیں: (۱) جب معانقہ میں قلبی مودت وبشاشت اور دل سے وحشت وبغض کے رفع کا اظہار ہے تو حکمت کا تقاضہ ہے کہ معانقہ کرنے والوں کا سینہ اس طرح ملے کہ گویا دونوں کے دل مل گئے؛ تاکہ ظاہر اور معنی میں مطابقت ہوجائے اور دل ہر انسان کے سینہ میں بس ایک ہی اور وہ بھی بائیں جانب رکھا گیا ہے…؛ اس لیے معانقہ میں وہی جہت اپنے مقصود کے لحاظ سے متعین ہوجاتی ہے اور تعامل اس کا شاہد ہے؛ پس اس کی رعایت کرنا شرعاً مطلوب ہے اور وہی سنت کے موافق ہے۔ (۲) اِفاضہ واِستفاضہ اور محبت کا اصل ذریعہ قلب ہے او راس کے لیے جانبین سے قلوب کا متوجہ ہونا ضروری ہے، قرب مکان ضروری نہیں ہے؛ لیکن محبت کی کشش جب زیارت وملاقات پر آمادہ کرتی ہے اور وصال کے قریب پہنچادیتی ہے تو بتقاضۂ فرطِ محبت دل کا دل سے ظاہراً اتصال بھی مرغوب ہوجاتا ہے اور معانقہ کی صورت میں مطلوب شرعی بن جاتا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: ۸ جلد: ۹۳، شعبان ۱۴۳۰ھ مولف عرض گزار ہے کہ اتنی بات پر سب کا اتفاق ہے کہ معانقہ کا محرک ہیجان المحبۃ اور انتہائی درجے کہ الفت وعقیدت کا اظہا رہے اور یہ پہلو قابلِ توجہ ہے کہ معانقہ کا یہ مفہوم’’گردن سے گردن‘‘ ملانے میں زیادہ پایا جاتا ہے یا ’’سینہ سے سینہ ملانے‘‘ میں زیادہ پایا جاتا ہے ، ظاہر سی بات ہے کہ ثانی الذکر مفہوم، معانقہ کے مقصود