اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تم اتباع سنت کی نیت سے کرو گے تو اس میں سنت کی اتباع کا اجروثواب اور سنت کی برکت اور نور شامل ہوجاتا ہے۔ (اصلاحی خطبات:۶؍۱۸۸) الغرض سنت کو برمحل انجام دیا جائے تو کارِ ثواب اور بے محل انجام دیا جائے تو کارِ عقاب ہے۔ پیچھے آپ نے مصافحہ کی مشروعیت وفضائل کی بہت سی روایتیں پڑھیں، ان سب میں عموماً لقاء، استقبال اور التقاء کے الفاظ ہیں، جس کا صاف مطلب ہے کہ مصافحہ بوقتِ ملاقات بعد سلام مشروع ہے؛ اِسی لیے محدثین نے لکھا ہے: واعلم أن ہذہ المصافحۃ مستحبۃ عند کل لقاء۔ (الأذکار:۳۰۳) قال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: وموضع المصافحۃ في الشرع، إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ(۱) فالمصافحۃ سنۃ مجمع علیہا عند التلاقي(۲) فإن محل المصافحۃ المشروعۃ، أول الملاقاۃ۔ (مرقاۃ: ۹؍۷۴) ان سب تصریحات میں ’’ملاقات‘‘ کی قید ہے، اب طے یہ کرنا ہے کہ ملاقات کا مطلب کیا ہے؟ ملاقات کامطلب عرف میں یہی سمجھا جاتاہے کہ دو یا دو سے زائد آدمی ایک جگہ موجود نہ ہوں پھر کہیں سے کوئی آ جائے اور سامنا ہوجائے، ایک گھر میں پوری فیملی ہوتی ہے، وہاں کوئی نہیں (۱) شامی:۱؍۵۴۸۔ (۲) ارشاد الساری: ۱۳؍۲۶۹۔ کہتا کہ میری فلاں سے ملاقات ہوئی، اُسی فیملی کے کچھ افراد کہیں جائیں تو جہاں جائیں گے وہاں ملاقات ہوگی، جب واپس اپنے گھر آئیں گے تو ملاقات ہوگی، اِسی کو ملاقات کہتے ہیں؛ لہٰذا ان حالات میں مصافحہ کرنا مشروع ومسنون ہوگا؛ لہٰذا اس کے علاوہ کسی خاص موقع یا کسی خاص تقریب کے وقت مصافحہ کو ضروری سمجھنا، غیر شرعی بات ہوگی۔ مسجد میں لوگ پانچ وقت نماز کے لیے آتے ہیں، آتے وقت ایک دوسرے سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور کچھ کی نہیںہوتی ہے، سلام ودعا بھی ہوجاتا ہے، اب مسجدوں میں نماز کے اختتام پر اچانک لوگ مصافحہ کرنے لگیں تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ سنت یا خلافِ سنت کچھ لوگ فجروعصر کی نماز کے بعد مصافحہ التزام کے ساتھ کرنا نہ صرف ضروری سمجھتے ہیں؛ بلکہ جو اُس وقت مصافحہ نہیں کرتا یا منع کرتا ہے، انہیں اچھا نہیں سمجھتے کچھ اور سمجھتے ہیں، اُن حضرات کا مستدل ممکن ہے وہ روایتیں ہوں، جن میں مصافحہ کا عمومی حکم ہے، مثلا تصافحوا وغیرہ، اوپر کی تصریحات سے اس طرز عمل کا غیر مشروع اور غیر مسنون ہونا ظاہر ہوجاتا ہے؛ تاہم مولف ان عبارتوں کو یہاں ذکر کرنامناسب سمجھتاہے، جن میں اس وقت مصافحہ کو جائز کہا گیا ہے، پھر ان عبارتوں کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا۔ (۱) علامہ نوویؒ جو شرح حدیث کے مستند ترین امام تسلیم کیے جاتے ہیں، انہوں نے الاذکار میں لکھا ہے کہ فجراور عصر کی نمازوں کے بعد، لوگوں کی جومصافحہ کرنے کی عادت ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، فلا أصل لہ في الشرع علی ہذا الوجہ؛لیکن آگے انہو ںنے لکھا ہے کہ ولکن لا بأس بہ، اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے اور دلیل دی ہے کہ اصل مصافحہ سنت ہے، اور لوگوں کا بعض احوال میں مصافحہ کرنا اور