اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تاکہ اُن غلطیوں کو سدھارا جاسکے۔ مسئلہ: ’’بعض لوگ السلام علیکم کے بجائے خط میں سلام مسنون لکھ دیتے ہیں سو‘‘ اگر خط میں کوئی لکھے کہ بعد سلام مسنون عرض ہے تو چونکہ شریعت میں یہ صیغہ سلام کا نہیں بلکہ السلام علیکم ہے؛ اس لیے اس صیغۂ سلام مسنون کا جواب دینا واجب نہ ہوگا ؛اگر چہ سلام مسنون لکھنا جائز ہے۔ (الإفاضات: ۷؍۱۹۹) فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ بعض اکابر کے خطوط میں جو بعد سلام مسنون لکھا ہے وہ اس لیے ہے کہ انہوں نے مخاطب پر جواب واجب کرنے سے احتیاط فرمائی ہے، جیسے چھینکنے پر الحمد للہ آہستہ کہنا یا آیت سجدہ کو کھلی ہوئی آواز سے پڑھنے کی تعلیم فرمائی ہے ؛تاکہ دوسروں پر واجب نہ ہو۔ مسئلہ: سلام کا صیغہ حدیث شریف میں ہے السلام علیکم یا اس کے قریب قریب الفاظ آئے ہیںپس او رکوئی لفظ آداب، بندگی، کورنش وغیرہ کہنا یہ سب بدعت سیئہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے خیر! اگر کوئی سلام کے لفظ سے بہت ہی برا مانے تو اُس کو حضرت سلامت، یا تسلیم یا تسلیمات کہنے تک گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ مسئلہ: سلام کے وقت جو اکثر لوگوں کی عادت ہاتھ اٹھانے کی ہے یہ عادت میرے نزدیک ضروری الترک ہے؛ کیوں کہ سلام کے ادا ہونے میں تو ہاتھ اٹھانے کو کوئی دخل نہیں، بس ہاتھ اٹھانا تعظیم کے لیے ہے جو کہ درست نہیں ۔ مسئلہ: بعض لوگ سلام کے جواب میں صرف سرہلادینا یا ہاتھ صرف اٹھادینا کافی سمجھتے ہیں، اِس کے متعلق جاننا چاہیے کہ قرآن مجید میں ہے کہ جب تم کو کوئی سلام کرے تو اس سے اچھا جواب دو یا ویسا ہی لوٹادو، اِس سے معلوم ہوا کہ سلام کے جواب میں صرف سر ہلادینا یا ہاتھ اٹھادینا کافی نہیں، اِس طرح جواب نہیں ہوتا ؛بلکہ زبان سے جواب دینا ذمہ میں رہ جاتا ہے۔ مسئلہ: بعض عورتیں سلام، شریعت کے قاعدہ کے بالکل خلاف کرتی ہیں، بعض تو سلام کو صرف سام کہتی ہیںچار حروف بھی پورے اُن کی زبان سے نہیں نکلتے؛ حالاں کہ عورتوںمیں السلام علیکم کہنے کا ؛ بلکہ مصافحہ کرنے کا رواج ہونا اور اِن دونوں باتوں کو پھیلانا چاہیے، دونوں باتیں ثواب کی ہیں۔ مسئلہ: اور اِس سے بھی زیادہ تعجب یہ ہے کہ جواب دینے والی، سارے کنبہ کا نام گنوادیتی ہے کہ بھائی جیتار ہے اور بیٹا زندہ رہے اور شوہر خوش رہے وغیرہ؛ لیکن ایک لفظ وعلیکم السلام نہ کہا جائیگا(حالانکہ وعلیکم السلام کہنا سنت ہے) مسئلہ: اگثر جگہ عورتوں میں (پہلے سلام کا آپس میں رواج تھا ہی نہیں) اب بھی اِس قسم کا رواج ہے کہ بجائے زبان سے سلام کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا، بس اِسی کو کافی سمجھ لیا اُدھر سے جواب ملا جیتی رہو، بچے جیتے رہیں، ٹھنڈی سہاگن رہو، اور جو ذرا لکھی پڑھی ہوئیں تو صرف لفظ سلام کہہ دیا؛ مگر چند روز سے یہاں بحمد اللہ اِس قصبہ (تھانہ بھون) میں عورتوں میں بھی آپس میں السلام علیکم کا رواج ہوگیا ہے۔ مسئلہ: سلام میں یہ بے احتیا طیاں کی جاتی ہیں، یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ وقت سلام کا نہیں ذکر، قرآن، خطبہ، اذان وغیرہ سب میں آتے جاتے سلام کرتے ہیں، مثل مشہور ہے