اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نیز اس درود وسلام کے ساتھ مندرجہ ذیل عقائد بھی ہوتے ہیں۔ ۱- ایسی مجلس میں نبی کریمﷺ بنفس نفیس تشریف لاتے ہیں ؛ کیوں کہ وہ حاضر وناظر ہیں؛ لہٰذا وہ ہمارا سلام خود سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ ۲- جو لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں وہ نبی کریمﷺ کے سچے پیروکار نہیں ہیں۔ ۳- سلام کے الفاظ بالکل مخصوص ہوتے ہیں یعنی یا نبي سلام علیک یا رسول سلام علیک ۴- اس درودو سلام کے لیے قیام ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طریقہ پر جناب نبی کریم پر درود وسلام پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ ذیل میں ہر ایک کا حکم درج کیا جارہا ہے۔ کسی نماز کے بعد یا مخصوص تقریب میں اجتماع والتزام کے ساتھ بلند آواز سے درودوسلام پڑھنا نہ رسول اللہﷺ سے ثابت ہے نہ صحابہ وتابعین سے اور نہ ائمہ مجتہدین اور علماء ِسلف میں کسی سے ؛اگر یہ عمل اللہ اور رسولﷺ کے نزدیک محمود ومستحسن ہوتا تو صحابہ وتابعین اور ائمہ دین اِس کو پوری پابندی کے ساتھ کرتے؛حالاں کہ ُان کی پوری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا؛اگر مخصوص نمازوں میں درود وسلام پڑھنا شرعا مطلوب ہوتاتو اس مسئلے میں اختلاف ہی کیوں ہوتا؟ نماز سے کوئی زمانہ خالی نہیں، نماز کے اوقات، رکعات اور ہر چھوٹی بڑی چیزیں صحیح سند اور توارُث کے ساتھ منقول ہیں، کتابوں میں درج ہیں، اُن میں مذکورہ درودو سلام کا آخر کوئی تذکرہ کیوں نہیں؟ یہ دلیل ہے کہ قرونِ اولیٰ میں اِس کا کوئی ثبوت نہیں تھا، اگر تھا تو جیسے نماز ساری امت کے پاس پہنچی، یہ درودو سلام کا مخصوص طریقہ امت تک کیوں نہیں پہنچا، اور اگر نہیں تھا تو اب اس طریقے پر اصرار کو کیا نام دیا جائے، سنت یا بدعت؟ مذکورہ سلام میں دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، یا نبی، یار سول، اردومیں کہیں گے اے نبی، اے رسول، ’’یا‘‘ عربی میں اور ’’ اے‘‘ اردو میں، خطاب کے الفاظ ہیں یعنی کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا، اب اگر یہ الفاظ اِس عقیدے سے ہوں کہ جس طرح اللہ ہر جگہ موجود اور ہر جگہ حاضر وناظر ہے، کائنات کی ہر آواز کو سنتا اور حرکت کو دیکھتا ہے، اسی طرح (معاذ اللہ) رسول کریمﷺ بھی موجود اور حاضر وناظرہیں، تو یہ خدائی صفات میں شرک کے مترادف ہے، اور نصاریٰ کی طرح رسول کو خدا کا درجہ دینا ہے، اور اگر عقیدہ ہو کہ حضورﷺ اِس مجلس میں تشریف لاتے ہیں تو اگر چہ بطور معجزہ یہ ممکن ہے؛ مگر اِس اِمکان کی شرعی دلیل چاہیے، اتنی بڑی بات قرآن وحدیث میں ہونی چاہیے؛ حالاں کہ نہیں ہے، حضور ﷺکی محبت میں مغلوب ہو کر اگر ایسا معجزہ اپنی طرف سے ثابت کیا جائے تو اسے محبت نہیں، محبت کا خون کہیں گے، بہ الفاظ دیگر حضورﷺ پر افتراء ہے، اِس محبت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اللہ کی محبت میں مغرب، تین کے بجائے چار رکعت پڑھ لے، اور سوچے کہ مجھے چار رکعات کا ثواب ملے گا؛ حالاں کہ وہ نماز ہی فاسد ہوگی،اور اگر اس طرح کا کوئی بھی عقیدہ نہیں ہے تب بھی اِس کی وجہ سے غلط عقیدہ کو راہ ملتی ہے، بسا اوقات لڑائی جھگڑے اور فتنہ وفساد پیدا ہوجاتے ہیں، اِس لیے ان سے اجتناب ضروری ہے۔