اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرح اگر ایسا شخص سلام کرے تو جواب نہ دینا بھی جائز ہے؛ تاکہ اُسے تنبیہ ہو اور آئندہ ایسے کام سے تو بہ کرلے؛چناں چہ بڑے بزرگوں کا اصلاحی طریقہ ایسا رہا ہے، سرکارِ دو عالم کی سیرت میں اس حوالے سے بھی ہمیں روشنی ملتی ہے، ابن قیمؒ نے اس عنوان کے تحت تین روایتیں ذکر کی ہیں، ملاحظہ فرمائیں: (۱) ۹ ھ میں پیش آنے والے غزوہ تبوک میں تین صحابہ کرام نے شرکت نہیں فرمائی تھی؛ جبکہ حضورﷺ کی طرف سے سارے صحابہ کو جانے کا حکم تھا، حضرت ہلال بن امیہ ، مُرارہ ابن ربیع کے ساتھ حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ عنہم بھی پیچھے رہ گئے تھے، غزوے سے واپسی پر ان لوگوں سے باز پرس ہوئی اور حضورﷺ اور دیگر صحابہ کرام نے حضرت کعب سے قطع تعلق کرلیا کہ دیکھیں خدا کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؛ بعد میں ان لوگوں کی توبہ قبول ہوئی اور قرآن میں اس کے متعلق آیتیں اتریں، اُسی وقت کا واقعہ ہے کہ حضرت کعب حضورﷺ کو سلام کرتے تھے؛ لیکن آپ جو اب نہیں دیتے تھے، روایت کے الفاظ ہیں: وکان کعب یُسلّم علیہ، ولا یدري ہل حرّک شفتیہ بردّ السلام علیہ أم لا۔ (مسلم:۲۷۶۹) (۲) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ خشکی کی وجہ سے پھٹ گئے تھے، گھر والوںنے خلوق نامی خوشبوان کے ہاتھوںمیں مل دی جس میںزعفران کی آمیزش ہوتی ہے(اسی وجہ سے مَردوں کو اُس کا لگانا منع ہے) انہوں نے اُسی حالت میں نبی کریمﷺ کو سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا؛ بلکہ اُن سے کہا جاؤ اسے دھوڈالو۔(ابوداؤد:۴۱۷۶) (۳) ایک مرتبہ حضرت صَفیہ رضی اللہ عنہاکا اونٹ بیمار ہوگیا تو آپﷺ نے حضرت زینب بنت جحشؓ سے کہا: انہیں کوئی سواری دے دو تو حضرت زینبؓ کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا ، أنا أعطی تلک الیہودیۃ؟ کہ کیا میں اس یہودیہ کو دے سکتی ہوں (یعنی نہیں دوں گی) تو آپﷺ ناراض ہوئے اور اُن سے دو ڈھائی مہینے گفتگو نہیں فرمائی۔(ابوداؤد:۴۶۰۲) (۱) حضرت صفیہؓ یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے سردار حُیَيْ ابن اخطب کی بیٹی تھیں، فتح خیبر کے بعد آپ نے اُن سے نکاح فرمایا؛ چوں کہ اب وہ مسلمان ہوچکی تھیں، حضرت زینبؓ نے انہیں یہودیہ کہا جو غیر مشروع تھا تو آپ نے تنبیہ کے لئے د و مہینہ تک اُن سے گفتگو نہیں فرمائی، ابن قیمؒ نے اس روایت کو ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ زجرو تنبیہ کے لئے آپ سے ابتداء ً سلام نہ کرنا بھی ثابت ہے؛ کیوں کہ گفتگو کاترک، سلام کے ترک کو لازم ہے۔(زاد المعا:۲؍۳۹۱، بذل المجھود: ۱۳؍۱۲) مسئلہ: اوپر کی روایتوں سے معلوم ہوا کہ ادب وتہذیب سکھلانے کے لیے اور خلاف شرع کام سے روکنے کے لیے بڑے، چھوٹوں کو سلام نہ کریں یا جواب نہ دیں تو اِس کی گنجائش ہے، یہ اصلاح کا ایک طریقہ ہے، ایک روایت پڑھیے، آپ نے سلام کا جواب نہیں دیاتو فوری اصلاح ہوگئی۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ ایک صاحب، حضورﷺ کے پاس بحرین سے آئے، اُن کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی اور جسم پر ریشمی جبہ