اسلام کا نظام سلام ومصافحہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ناجائز کام کا سبب ہوسکتا ہو، شریعت نے ایسی جگہوں پر پابندی لگائی ہے کہ ایسا کام ہی نہ کیا جائے؛ تاکہ فتنہ یا اندیشۂ فتنہ کا دروازہ مسدود ہوجائے، اور پاک وصاف اسلامی معاشرہ وجود میں آئے، دیکھیے سلام فی نفسہ ثواب کا کام ہے؛ لیکن جہاں فتنہ کااندیشہ ہے؛ شریعت نے منع کردیا اور جہاں فتنہ یا فتنہ کا اندیشہ نہ ہو وہاں جائز رکھا، وأصل ہذا أن السلام شعار الإسلام شرع إفشاء ہ عند لقاء کل مسلم ممن عرفت وممن لم تعرف إلا أن یمنع منہ ما یُخَاف من الفتنۃ والتعریض للفسوق کما منع من الرویۃ بمثل ذلک وأمر بالحجاب۔ (المنتقٰی:۷؍۲۸۰) امام بخاریؒ نے الادب المفرد میں باب تسلیم النساء علی الرجال اور باب التسلیم علی النساء کے تحت دو روایتیں ذکر کی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے حضورﷺ عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے، اور عورتیں حضورﷺ کو سلام کرتی تھیں دیکھیے الأدب المفرد،رقم الحدیث: ۹۸۱-۹۸۴۔ اِسی طرح ایک حدیث حضرت جریررضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کہ حضورﷺ ایک مرتبہ عورتوں کے پاس سے گذرے تو انہیں سلام کیا(مصنف ابن ابی شیبہ:۲۵۷۸۱) صاحب اوجزؒ نے علامہ حلیمیؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: کان النبيﷺ للعصمۃ مأمونا من الفتنۃ، فمن وثق من نفسہ بالسلام فلیسلم، وإلا فالصمت أسلم۔أوجز المسالک:۱۷؍۱۷۹) اس کی مزید تفصیل مظاہر حق جدید میں ہے۔ یہ بات آںحضرتﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ خاص تھی؛ کیوں کہ کسی فتنہ وشر میں آں حضرتﷺ کے مبتلا ہونے کا کوئی خوف وخطرہ نہ تھا؛ اِس لیے آپ کے لیے عورتوں کو بھی سلام کرنا روا تھا؛ لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کے لیے یہ مکروہ ہے کہ وہ اجنبی عورت کوسلام کرے؛ہاں اگر کوئی عورت اتنی عمر رسیدہ ہو کہ اس کے تئیں کسی فتنہ وشرمیں مبتلا ہونے کا کوئی خوف نہ ہو اور نہ اُس کو سلام کرنا دوسروں کی نظروں میں کسی بد گمانی کا سبب بن سکتا ہو تو اُس کو سلام کرنا جائز ہوگا۔(مظاہر :۵؍۳۴۶) اوپر جو کچھ تحریر کیا گیا وہ جمہور کی رائے کے مطابق ہے؛ البتہ کچھ لوگوں نے یہ کہا ہے کہ مَردوں کا عورتوں کو او رعورتوں کا مردوں کو سلام کرنا بالکلیہ درست نہیں ہے، اِس کے بارے میں علامہ نوویؒ نے لکھا ہے کہ ’’وہو غلط‘‘کہ یہ بات درست نہیں ہے۔(شرح النووی: ۱۴؍۱۴۹) اور کچھ لوگوں نے جن کو اپنی تحقیق اور اپنے علم پربڑا ناز ہے،اِس کے بر عکس یہ کہا ہے: کہ بالکلیہ مَردوں کا عورتوں کو، اور عورتوں کا مَردوں کو سلام کرنا جائز ہے؛ کیوں کہ یہ ایک شرعی ضرورت ہے، باقی إنما الأعمال بالنیات اور ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید(ق:۱۸) یہ بات بالکل بے بنیاد ہے، اور بے بنیادی کی وجہ خود ان کا بیان کردہ یہ مسئلہ ہے کہ اجنبی غیر محارم عورتوں سے مصافحہ کرنا ناجائز ہے، کوئی اُن سے پوچھے کہ إنما الأعمال بالنیات کا کیا ہوا؟ ہم صاف اور پاک جذبے سے مصافحہ کررہے ہیں، پھر کیوں ناجائز ہے، کیا مصافحہ شرعی ضرورت نہیں ہے؟ مصافحہ سے تو کینے کی صفائی ہوتی ہے، اس غلط مسئلے کے لئے دیکھیے: ’’سلام کے احکام وفضائل‘‘