موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کہ دوبارہ جب ہم اُٹھائے جائیں گے توجس طرح اس دنیا میں مزے میں تھے وہاں پر بھی مزے میں ہوں گے۔ اس کا عمل پر مدار نہیں رکھتے کہ اگر آدمی کا عمل اچھا ہوگا تو اچھا بدلہ ملے گا اور آدمی کا عمل بُرا ہوگا تو بُرا بدلہ ملے گا، ظاہر ہے ایسا آدمی بھی اللہ کے قریب نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ کی جو سنت اور محکم نظام ہے وہ اس کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ایک اور قسم یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو واحد ماناجائے، آخرت کو بھی مانا جائے، آخرت کی جزا و سزا کو بھی ماناجائے، مگر ساتھ ساتھ اتقان علی الشفاعۃ کا عقیدہ بھی رکھا جائےکوئی ہمارا کام بنادے گا، کوئی ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردے گا اور ہمارے مصیبت کے وقت میں کام آکر ہماری مصیبت کو ٹلا دے گا، ایسا سمجھ کر بھی آدمی غفلت میں رہتا ہے اور ایسی روح بھی اللہ تعالیٰ سے قریب نہیں ہوسکتی۔ یہ سب کی سب رکاوٹیں ، حجابات اور موانع ،عقل وفہم اور اعتقادات سے متعلق ہیں ایک صورت دوری کی یہ ہے کہ عمل کے لحاظ سے دور رہا جائے یعنی ان تمام چیزوں کا یقین اور ان کو ماننے کے باوجود آدمی بدعمل ہے۔ جو ذمے داریاں اُس پر ہیں عبادات کی، معاملات کی، معاشرت کی، اخلاق کی اُن میں وہ کمی اور کوتاہی کرتا ہے، ایسا آدمی بھی آخرت میں اللہ تعالیٰ سے دور ہوگا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب عمل کی بنیاد پر رکھا ہے۔ اگر یہ سب رکاوٹیں ختم ہوجائیں یعنی آدمی اللہ تعالیٰ کو مانے، اللہ تعالیٰ کو واحد مانے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اللہ کو مدبر مانے، آخرت کو مانے اور آخرت کی جزا و سزا کو مانے اور آخرت میں اللہ کے علاوہ کسی کے اوپر اعتماد و اتقان نہ ہو کہ کوئی میرا کام کروادے گا،اور یہ یقین ہوکہ اگر کوئی میرا کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرے گا،اور میرے اعمال کے مطابق میرے ساتھ برتاؤ ہوگا اور ساتھ ساتھ بدعملی بھی نہ کرےتو انشاء اللہ حق تعالیٰ شانہ کا اُس کو قرب مل جائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنی معرفت اسے عطا فرمادیں گے اور اُسے اپنے قریب کرلیں گے ۔