موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ابو طالب التغلبی فرماتے ہیں کہ تاویل ،مراد الٰہی اور اس کی حقیقت کی خبر دینے کا نام ہے اور تفسیر مراد کی دلیل بتانے کا نام ہے ۔۱؎تفسیر کی ضرورت کیوں؟ علماء نے لکھا ہے کہ تین امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے تفسیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ (۱)مصنف انتہائی باکمال اور با فضیلت اور با علم ہوتا ہے ،ظاہر ہے کہ اس کاجیسا کمال ہوگا ویسا ہی اس کا کلام بھی ہوگا ، اس کے اسی کمال اور علمی قوت کی وجہ سے اس کے کلام کے معانی بہت ہی دقیق ہوتے ہیں جس سے اس کی مراد کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے تفسیر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ (۲)صاحبِ کلام، بعض تتمات اور شرائط اور اس کے علاوہ دیگر چیزیں واضح ہونے کی وجہ سے سامع پر اعتماد کرکے بیان نہیں کرتا ہےلیکن سامع پھر بھی اس کو سمجھ نہیں پاتا ،اس لئے شارع کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں کی توضیح کرے ۔ (۳)بعض اوقات ایک لفظ کے کئی معانی اور مطالب ہوتے ہیں،جیسا کہ کبھی الفاظ کے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنیٰ مراد ہوتے ہیں، تو اس کی وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسےقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سحر کا وقت بتلاتے ہوئے فرمایا کہ جب تک کالے دھاگے کے مقابلہ میں سفید دھاگہ واضح نہ ہوجائے اس وقت تک کھاؤ،اس آیت میں اللہ پاک نے ’’خیط ِابیض اور خیطِ اسود‘‘کا لفظ استعمال فرمایا،جس کے معنیٰ سفید دھاگےاور کالے دھاگے کے ہیں اور حضرت عدی ابن حاتم نےبھی اس کے یہی معانی مراد لئے ،اور اس کے مطابق عمل کیا کہ اپنے تکیہ کے نیچے یہ دو رنگ کے دھاگے رکھ لئے اور سحر میں ان دونوں کو دیکھتے جاتے کہ سفید دھاگہ کالے دھاگہ کے مقابلہ میں واضح ہوا یا نہیں ،اور کھاتے جاتے ، جب نبیﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی آپ نے فرمایا کہ اے عدی تمہارا تکیہ تو بڑا چوڑا ہے،پھر آپ نے اس کی توضیح فرمائی کہ اس سے مراد آسمان پر ظاہر ہونے والی سفیدی اور سیاہی ہے،سفید دھاگا اور کالا دھاگا مراد نہیں ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ : الاتقان فی علوم القرآن: النوع السابع والسبعون: فی معرفۃ تفسيره وتأويلہ وبيان شرفہ والحاجۃ الیہ۔ ۲؎: صحیح البخاری:کتاب تفسیر القرآن:باب قول اللہ تعالیٰ وکلو ا واشربوا ۔الخ