موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اس لئے محقق مفسرین اس وقت تک کسی روایت کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے جب تک وہ تنقید روایات کے اصولوں پر پوری نہ اُترتی ہو، لہذا جو روایت جہاں نظر آجائے اُسے دیکھ کر قرآن کریم کی کوئی تفسیر متعین کرلینا درست نہیں، کیونکہ وہ روایت ضعیف اور دوسری مضبوط روایتوں کے خلاف بھی ہوسکتی ہے، درحقیقت یہ معاملہ بڑا نازک ہے، اور اس میں قدم رکھنا انہی لوگوں کا کام ہے جنہوں نے اپنی عمریں ان علوم کو حاصل کرنے میں خرچ کی ہیں۔۳۔صحابہ کے اقوال: صحابۂ کرام نے قرآن کریم کی تعلیم براہِ راست آنحضرت ﷺ سے حاصل کی تھی، اس کے علاوہ نزول وحی کے وقت وہ بہ نفسِ نفیس موجود تھے، اور انہوں نے نزولِ قرآن کے پورے ماحول اور پس منظر کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا تھا، اس لئے فطری طور پر قرآن کریم کی تفسیر میں ان حضرات کے اقوال جتنے مستند اور قابلِ اعتماد ہوسکتے ہیں، بعد کے لوگوں کو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا، لہذا جن آیتوں کی تفسیر قرآن یا حدیث سے معلوم نہیں ہوتی ان میں سب سے زیادہ اہمیت صحابۂ کرامکے اقوال کو حاصل ہے،چنانچہ اگر کسی آیت کی تفسیر پر صحابہ کا اتفاق ہو تو مفسرین کرام اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی اور تفسیر بیان کرنا جائز نہیں ، ہاں ! اگر کسی آیت کی تفسیر میں صحابۂ کرام کے اقوال مختلف ہوں تو بعد کے مفسرین دوسرے دلائل کی روشنی میں یہ دیکھتے ہیں کہ کونسی تفسیر کو ترجیح دی جائے؟ اس معاملہ میں اہم اصول اور قواعد، اصولِ فقہ اور اصولِ تفسیر میں مدون ہیں، ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ۔۴۔ تابعینکے اقوال: صحابہ کے بعد تابعین کا نمبر آتا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر صحابۂ کرام سے سیکھی ہے، اس لئے اُن کے اقوال بھی علم تفسیر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اگرچہ اس معاملہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تابعین کے اقوال تفسیر میں حجت ہیں یا نہیں ؟ (الاتقان : ۲ ؍ ۱۷۹) لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔۵۔لُغتِ عرب: قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لئے تفسیر قرآن کے لئے اس زبان پر مکمل عبور حاصل کرنا ضروری ہے، قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں کہ ان کے پسِ منظر میں چونکہ