موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ایسے موقع پر ہمارے ہاں جشنِ اعترافِ خدمت چلتا ہے کہ فلاں کا یہ کارنامہ ہے، اُس کا جشن مناؤ۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ حضور ﷺکی خدمات کا جشن منایا جائے۔ لیکن قرآن پاک میں یہ بتایا گیا کہ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ﴾ تم اپنے پروردگار کی حمد بیان کرو، یہ سب اللہ نے کیا جتنا کچھ ہوا۔ہر کمال اللہ کا عطا کردہ ہے: کیونکہ جو کمال آدمی کے اندر موجود ہے یا کوئی خوبی اس کے پاس ہے تو وہ سب اللہ ہی کی عطا کردہ ہے، اُس کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ یہ جو ’’میں‘‘ ہے کہ ’’یہ میں نے کیا، یہ میں نے کیا‘‘ اس نے تو پوری دنیا میں ہم مسلمانوں کا ستیاناس کردیا ۔ ہمارے سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا، کرنے والی ذات صرف ایک اللہ کی ہے۔ ہم کو قرآن کریم کے پہلے جملے میں یہ سبق دیا گیا کہ حمد،اللہ کی ہونی ہے،کیونکہ جو بھی خوبی ہے وہ اللہ ہی کی ہے،بندہ کا اس میں کچھ دخل نہیں ۔لفظ ِحمد میں در اصل توحید کا سبق ہے: ’’الحمدللہ‘‘میں در اصل توحید کا ذہن بنتا ہے، اپنی ذات کی نفی اس سے ہوتی ہے، مخلوق کی نفی اس سے ہوتی ہے، جب آدمی نے مخلوق کی نفی کردی کہ مخلوق کچھ بھی نہیں اورجو بھی ہے وہ اللہ ہی کاعطا کردہ ہے تو اُس کا دماغ مخلوق سے ہٹ کر خالق کی طرف چلا جاتا ہے،اُس کے اندر بندگی آجاتی ہے اور وہ تمام سطحی چیزوں سے اوپر ہوجاتا ہے۔ آپ لوگوں کے علم میں ہو نا چاہیے کہ جتنی جدید تحقیقات ہیں ان سب سے اللہ پاک کی توحید کا مضمون اور اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے۔ اسلام نے یہ بتایا کہ سب چیزیں مخلوق ہیں اور وہ تمہاری خدمت کے لیے ہیں، تم تمام مخلوق میں سب سے بڑی اور افضل مخلوق