موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
جائے لیکن ہم اپنا ایمان نہیں چھوڑیں گے۔ ان نوجوانوں نے اپنے ساتھ توشہ اور کچھ پیسے ساتھ لیے اور ایک غار میں چھپ گئے۔ وہاں پر کھاپی کر سوگئے، جب سوئے تو سوتے ہی رہ گئے۔ پھر ایک وقت کے بعد سب اُٹھے، اُٹھنے کے بعد ایک دوسرے سے پوچھا کہ ہمیں سوتے ہوئے کتنی دیر ہوگئی۔بعض نے کہا کہ ایک دن ہوا ہے،لیکن حق تعالیٰ نے فرمایا ایک دن نہیں بلکہ تین سو نو سال وہ اس غار میں رہے : ﴿وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا﴾۱؎وازْدادوا تِسعا سے متعلق ایک نکتہ علماء نے لکھا ہے کہ عربی میں تین سو نو سال کے لئے یہ تعبیر استعمال نہیں کی جاتی جو اللہ پاک نے استعمال فرمائی ہے،اس میں حکمت کیا ہے؟اس کی حکمت یہ ہے کہ جو سورج کے مطابق حساب کریں گے اُن کے لیے تین سو سال ہوں گے اور جو چاند کے مطابق حساب کریں گے اُن کے لیے تین سو نو سال ہوں گے۔ اس لئے ’’تین سو‘‘ علاحدہ استعمال فرمایا،اور مزید نو سال کا علاحدہ ذکر فرمایا۔ غرض یہ کہ اٹھنے کے بعد انہیں بھوک محسوس ہوئی، ایک نوجوان کو بازار سے کچھ کھانے پینے کی چیز یں لینے کے لئے بھیجا۔وہ پیسے لے کر گیا اور ساتھیوں نے تاکید کی کہ دکان والوں سے نرمی سے پیش آنا، ایسا نہ ہو کہ تم اُن سے جھگڑا کر بیٹھو تو ہمارے لیے مسئلہ ہوجائے ،اس نے بازار جاکر دکان والے کو جو سکہ دیا تو دوکان دارنے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اورپوچھا کہ یہ کہاں سے لائے ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ یہ میرے پیسے ہیں۔ دکاندار نے کہا کہ یہ تمہارے پیسے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ دقیانوسی زمانے کے پیسے ہیں۔ اُس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا(یہ لفظ ’’دقیانوسی‘‘ وہیں سے چلا ہے)دکاندار نے پھر کہا کہ ------------------------------ ۱؎:الکہف:۲۵۔