موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
لئے اس کا فیصلہ کیا جاے گاجو تم سے عمل کروایا جارہا ہےتم اُسے کرو اور ہماری طرف آؤ تو پھر جو ہماری رحمت کے لامتناہی خزانے ہیں اُن خزانوں سے تم مستفید ہوسکو گے۔ کائنات میں جتنی تبدیلی و ترقی ہو رہی ہےیہ سب انہی دونوں اسماء کی تجلیات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پوری کائنات پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے نام کا اثر ہے۔ یہ جو جدید سائنسی ترقیات ہورہی ہیں، کھانے پینے کی جدید چیزیں اور رہنے سہنے کے جدید طریقے ، لذتوں و آرام کی نئی نئی شکلیں اور نئی نئی چیزیں ایجاد ہوتی جارہی ہیں یہ سب چیزیں صفتِ رحمانیت کی تجلی ہیں۔اخروی نجات صفتِ’’رحیمیت‘‘ کا اثر ہے: ’’رحیم‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جن کو انجام کے اعتبار سے کامیاب کرنا اور آرام پہنچانا ہےان کے لیے ’’رحیمیت‘‘ کی تجلی ہوتی ہے۔ دنیا میں اگر کسی کو رحمت ملے لیکن وہ اپنی بے اصولی کی وجہ سے خدا کے بنائے ہوئے ضابطے اور قانون کو توڑ دینے کی وجہ سے آخرت سے محروم ہوجائے، دنیا کی نعمتوں سے غلط استفادہ کرکے آخرت کی نعمتوں سے اپنے آپ کو محروم کرلے تو اس کا اپنا ذاتی نقصان ہےاور جو انجام کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی نعمتوں سے ٹھیک ٹھیک فائدہ اُٹھائے تو وہ ’’رحیمیت‘‘ کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے دین کا او رروحانی اور انسانی تربیت کا جو نظام ہے وہ سب ’’رحیمیت‘‘ کا اثر ہے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجا تو وہ ’’رحیمیت‘‘ کے اثر سے بھیجا۔دعوت و تبلیغ بھی صفتِ رحیمیت کا اثرہے: ایسے ہی اللہ پاک ہر زمانہ میں اپنے نیک بندوں کو گمراہ لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجتے ہیں تو وہ بھی صفتِ رحیمیت کا اثر ہوتا ہے۔