موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہوگئی تھی۔ یہ طلب ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہے،اخلاق میں، معاملات میں، معاشرت میں، بیوی بچوں میں، کھانے پینے میں، رہنے سہنے میں، وضع قطع میں، شکل و صورت اور لباس میں کہ ہمیں صحیح راستہ مل جائے اور اللہ پاک کی رضاحاصل ہو جائے، اس طلب اور شعور کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے، اوراس کے سامنے اپنی ناک رگڑنا چاہئے،تب جا کر رحمتِ حق کے دروازےہمارے لئے کھلیں گے،ہدایت کے راستے ہمارے لئے کھلیں گے۔راہِ حق کے علاوہ دوسرے راستوں پر چلتے ہوئے ہم کو ایک قسم کا حجاب آئے گا۔ اسی لیے کہا گیا: ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾۱؎ ’’نماز فحش اور منکر سے روکتی ہے۔‘‘ ایسا کیوں ہے؟نماز کی خصوصیت: اس لئے کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ کے سامنے اتنا کہنے کے بعد عمل کا بھی ارادہ کرتا ہے،اور سورۂ فاتحہ کے بعد ناک رگڑکر عملی ثبوت بھی پیش کر تا ہے اور دس مرتبہ اپنا سر اس کے سامنے رکھ بھی چکا ہے تو پھر وہ بُرائی کی طرف جاتے ہوئےہچکچاہٹ محسوس کرے گا،اس سے رک جائے گا۔ایک بزرگ کا ملفوظ: ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ ’’تَنْھٰی‘‘ عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی روکنے کے ہیں اور ایک ’’تنہا‘‘ اُردو کا ہوتا ہے یعنی اکیلا۔ ان دونوں کو سامنے رکھ کر وہ کہتے تھے کہ تنہا نماز تمام فحش اور منکر سے روک دیتی ہے۔لیکن یہ اس وقت روکے گی جب کہ آدمی نماز کو نماز کی طرح پڑھے، جیسے کھانے کی ایک خصوصیت ہے، پینے کی ایک خصوصیت ہے اسی طرح نماز کی بھی ایک خصوصیت ہے۔اور وہ ہے منکرات سے باز رکھنا۔ ------------------------------ ۱؎: العنکبوت:۴۵۔