موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿قَالَ مَنْ يُّحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِيْمٌ . قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِیْ أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيْمٌ﴾۱؎ کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہو گئی ہوں کون زندہ کرےگا ،آپ جواب دیجئے کہ ان کو وہی زندہ کریگا جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے۔ قیامت سے متعلق دو باتیں بطورِ خاص اللہ پاک نے بیان فرمائی ہیں۔(۱)ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اُس دن لوگوں کو زندہ کرکے جمع فرمائیں گے ،اس کا مقصد کیا ہوگا ؟اور کیسے اللہ پاک زندہ فرمائیں گے؟(۲)دوسرا یہ کہ وہ دن کس طرح ہوگا؟ کن حالات سے لوگ اُس دن گزریں گے،ان دونوں چیزوں کا کچھ تذکرہ آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔نظامِ قیامت حق تعالیٰ کی صفتِ عدل کا تقاضہ ہے: حق تعالیٰ شانہ، عادل ہیں، اُن کے عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اچھے اور بُرے میں امتیاز کو ظاہر فرمائیں اور نیکی اور بدی کو ظاہر فرمائیں۔ اس دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک بُرا آدمی مرنے تک آرام کرلیتا ہے اور ایک بھلا آدمی مرنے تک مصیبت میں رہ جاتا ہے۔ اگر ایسی بات ہو کہ کل کوئی بدلہ کا دن قائم نہ ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ عدل و انصاف کا مظاہرہ نہ فرمائیں تو پھر یہ اچھے اور بُرے کا امتیاز بالکل لغو ہوجائے گا اور انسانی زندگی کا نظام بے کار ہوجائے گا۔ اس زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہے گا ، جیسا چاہے جانوروں کی طرح زندگی گزاری جائے گی، حالانکہ قرآن پاک میں یہ مضمون متعدد جگہوں پر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے انسان کو بے کار پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ کل ایک دن آئے جہاں سارے انسانوں کو اللہ تعالیٰ جمع کریں اور جمع کرنے کے بعد اچھے و بُرے، نیک و بد، خیر و شر، حق و باطل، ظالم و ------------------------------ ۱؎:یس:۷۸و۷۹۔