موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کیونکہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ نبیوں کی تعظیم ظاہر کرنے کے لیے اُن کی قبروں کو سجدہ کرنے لگے۔ ان احادیث میں نبیﷺنے تعظیماً سجدہ کرنے سے بھی منع فرمادیا،کیونکہ تعظیما ً سجدہ کرنےمیں عبادت کا شائبہ ہوتا ہے،اوراس امت میں یہ بھی جائز نہیں ہے،دوسری امتوں میں اگر چہ تعظیما سجدہ کی گنجائش تھی جیسا کہ حضرت یوسفکے قصہ سے معلوم ہوتا ہے،لیکن اس امت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔آداب اور تعظیم کے بھی حدود ہیں: ایک اہم بات یہاں عرض کردوں۔ ایک ہے کسی چیز کی عظمت و محبت اور ایک ہے اس کے ساتھ عظمت و محبت کی شرعی حد ۔بیت اللہ مقدس جگہ ہے۔ بیت المقدس بھی مقدس جگہ ہے، مسلمانوں کا قبلۂ اوّل رہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اب بھی اُس میں تقدیس کی شان رکھی ہے، قُدس بہرحال قدس ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا: ﴿اَلَّذِيْ بَارَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ آيَاتِنَا ﴾ ۱؎ ’’ہم نے اُس کے اطراف میں (بھی )برکتیں رکھ دی ہیں‘‘۔ بہر حال بیت اللہ بھی مقدس ہے اور بیت المقدس بھی مقدس ہے۔ دونوں کی تعظیم کی جائے گی،مگر دونوں کا حکم الگ الگ ہے۔ اگر کوئی بیت المقدس کا طواف کرے گا تو وہ طواف معتبر نہیں ہے۔ کوئی بیت المقدس جاکر مناسکِ حج ادا کرے گا تو حج ادا نہیں ہوگا ،کیونکہ ہر ایک کی تعظیم کے آداب بھی من جانب اللہ مقرر ہیں، ہم اپنی طرف سے جیسا چاہے ادب و احترام اس کے ساتھ نہیں کرسکتے حالانکہ بیت المقدس کی بھی بے ادبی اور بے حرمتی بھی جائزنہیں ہے۔اس لئے کسی کے ادب و احترام میں بھی ------------------------------ ۱؎:بنی اسرائیل:۱۔