موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’بلاشبہ اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا جبکہ اُن کے درمیان انہی میں سے ایک رسول (ﷺ) بھیجا، جو اُن کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کرے، اور انہیں پاک صاف کرے، اور انہیں اللہ کی کتاب اور دانائی کی باتوں کی تعلیم دے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ صحابۂ کرامکو صرف قرآن کریم کے الفاظ ہی نہیں سکھاتے تھے بلکہ اس کی پوری تفسیر بیان فرمایا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام کو ایک ایک سورت پڑھنے میں بعض اوقات کئی کئی سال لگ جاتے تھے،اس لئے کچھ باتیں علم تفسیر سے متعلق بھی زیر تحریر ہیں ۔علمِ تفسیر کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ: تفسیر کے لغوی معنیٰ ہیں بیان کرنا،کھولنا،واضح کرنا ۔ اس کے اصطلاحی معنیٰ علماء نے مختلف الفاظ سے مختلف انداز میں بیان کیےہیں، چنانچہ ابو حیان فرماتے ہیں : تفسیر ایسا علم ہے جس میں الفاظِ قرآنی کے نطق کی کیفیت (یعنی علمِ قرأت )سے متعلق بحث کی جائے، اور اس کے مدلولات( یعنی قرآن پاک کے الفاظ کے مدلولات اور مصداقات )سے متعلق بحث کی جائے،(جس میں بطورِ خاص علمِ لغت کی ضرورت ہوتی ہے)۔اور قرآن پاک کے افرادی اور ترکیبی احکام سے متعلق بحث کی جائے ،(جس میں علمِ صرف ،علمِ معانی اور علمِ بدیع کی ضرورت ہوتی ہے) اور اس میں الفا ظ کے ان معانی سے بحث کی جائے جن پر ترکیب کی حالت میں ان کو محمول کیا جاتا ہے،(یعنی جس میں الفاظ کی دلالت معانی پر حقیقی اور مجازی ہونے سے متعلق بحث کی جائے) ،اور اس کے علاوہ اس کے تتمات (یعنی ناسخ اور منسوخ ، واقعہ یا احکام کے نزول کے اسباب سے متعلق بحث کی جائے اور قرآن میں جو باتیں مبہم ہوں ان کی وضاحت اور تفسیر سے بحث کی جائے اور جو مطلق ہوں ان کی تقیید سے )بحث کی جائے وغیرہ وغیرہ،ان سب چیزوں کے جاننے کا نام علمِ تفسیر ہے۔۱؎ ایک اور تعریف اس طرح بھی کی گئی ہے: ’’عِلْمُ نُزُوْلِ الْآيَاتِ وَشُئُوْنِهَا وَأَقَاصِيْصِهَا، وَالْأَسْبَابِ النَّازِلَةِ فِيْهَا ثُمَّ تَرْتِيْبِ مَكِّيِّهَا وَمَدَنِيِّهَا، وَمُحْكَمِهَا وَمُتَشَابِهِهَا،وَنَاسِخِهَا وَمَنْسُوْخِهَا، وَخَاصِّهَاوَعَامِّهَا، وَمُطْلَقِهَا وَمُقَيَّدِهَا، وَمُجْمَلِهَا وَمُفَسَّرِهَا، وَحَلَالِهَا وَحَرَامِهَا وَوَعْدِهَا وَوَعِيْدِهَا،وَأَمْرِهَا وَنَهْيِهَا،وَعِبَرِهَا وَأَمْثَالِهَا‘‘۲؎ ------------------------------ ۱؎:الاتقان فی علوم القرآن النوع السابع فی معرفۃ تفسیرہ وتاویلہ۔۲؎ حوالۂ سابق۔