موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’جو کچھ میرے جی میں ہے آپ جانتے ہیں اور جو کچھ آپ کے جی میں ہے میں نہیں جانتا، آپ غیب کے جاننے والے ہیں۔‘‘ میں نے یہ آیتیں اس لیے بیان کی ہیں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ حق تعالیٰ شانہ عبادت کے معاملے میں کتنے سخت ہیں؟کیونکہ عبادت صرف اور صرف اللہ پاک کا حق ہے، اس میں کسی اور کی طرف متوجہ ہونے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔استعانت کیا ہے؟: اسی طریقے سے استعانت کابھی معاملہ ہے۔ استعانت مدد کو کہتے ہیں۔ اس میں چار مراحل ہوتے ہیں۔(۱)ایک تو یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو چاہ رہا ہے اُس کو جانے اور اس کی طلب و خواہش دل میں آئے اور اس کا ارادہ کرے۔(۲)دوسری بات یہ ہے کہ اس کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہے اُن کو مہیا کیا جائے۔(۳)تیسری بات یہ ہے کہ اس میں جو رکاوٹیں آرہی ہیں اُن کو دور کیا جائے۔(۴)چوتھی بات یہ ہے کہ مدد کی غرض پوری ہوجائے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سارے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں لیکن غرض مرتب نہیں ہوپاتی۔ جیسےہم نے کبھی کھانا کھایا لیکن بھوک ختم نہیں ہوئی،ہم نے پانی پیا لیکن پیاس نہیں بجھی،ہم نے دوا کھائی لیکن شفا حاصل نہیں ہوئی۔ ان سب چیزوں میں اسباب مہیا ہوگئے تھے لیکن کام پھر بھی نہیں بنا۔ ان چاروں کاموں کے لیے بندہ کی مصلحتوں کا جو علم چاہئےوہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے،نیز مخلوق کی ضروریات سننا، جاننا،دیکھنا،اس کا ارادہ کرنااور اس کو پوراکرنا سوائے اللہ کے کسی کے بس میں نہیں۔ اس لیے حق تعالیٰ شانہ عبادت اور استعانت دونوں کے مستحق ہیں۔عبادت میں بھی استعانت مطلوب ہے: جیسے دوسری چیزوں میں اللہ ہی سے مددطلب کی جاتی ہے ایسے ہی عبادت میں بھی اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہئے،کیونکہ اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر ہم عبادت بھی نہیں