موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی‘‘یہ عام ہے،حقیقی قرأت کو بھی شامل ہے اور حکمی قرأت کو بھی شامل ہے،تو جب لوگ امام کے پیچھے کھڑے ہوں ،امام قرأت کررہا ہو اور مقتدی خاموش کھڑے ہوں تو ان کا امام کے پیچھے خاموش کھڑا رہنا بھی پڑھنے کے ہی حکم میں ہے،لہٰذا مقتدی اگرچہ خاموش کھڑے ہیں لیکن وہ قرأت کرتے ہوئے کھڑے ہیں،اور ان کی اور امام کی نماز فاتحہ کے ساتھ ادا ہورہی ہے،البتہ امام کی قرأت حقیقۃً پائی جارہی ہے ،اور مقتدی کی حکماً پائی جا رہی ہے۔اور مقتدی کی یہ حکما قرأت کافی ہے،حقیقتاً پڑھنا ضروری نہیں ہے۔پس آپﷺ کے اس فرمان کے مطابق (کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی )ہمارا بھی عمل ہے۔احناف کے دلائل: یہ بحث تو ان روایتون کے متعلق تھی جن سے مقتدیوں کے لئے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ امام کے ساتھ سورۂ فاتحہ پڑھیں، اب مقتدی کے لئے قرأت نہ کرنے سے متعلق روایات سنئے،پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ نماز کے احکام کچھ تدریجاً آئے ہیں۔ جب نماز ہوتی تھی لوگ چل پھر لیتے تھے۔ نماز کے دوران سلام و دعا اور مزاج شریف کا پوچھنا بھی ہوتا تھا۔ دھیرے دھیرے نماز میں سکون آتا گیا۔ یہی حال تنہا نماز کے بعد جماعت کی نماز کا بھی ہوا،جماعت کی نماز کے احکام کی تفصیل بھی یہی ہے کہ پہلے لوگ امام کے ساتھ صرف جمع ہوجایا کرتے تھے، امام کے ساتھ مقتدی کی نماز بندھی ہوئی نہیں تھی۔ دھیرے دھیرے حضور اکرم ﷺ نے دوسروں کو امام کے ساتھ پابند کیا۔جن روایتوں میں یہ مضمون ہے کہ سورۂ فاتحہ مقتدی پڑھتے تھے یہ اُسی زمانے کی بات ہے ۔ پھر اس کے بعد کیا واقعات ہوئے: ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور دریافت فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی میرے پیچھے قرآن شریف پڑھ رہا تھا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم