موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
بسم اللہ میں فعل ذکرنہ کرنے کی حکمت: بسم اللہ کا لفظی ترجمہ ہوتا ہے ’’اللہ کے نام کی برکت سے‘‘۔لیکن اللہ کے نام کی برکت سے کیا کرنا ہے اس کا تذکرہ نہیں ہے ، اس کو کرنے والے پر چھوڑ دیا گیاہے کہ اگر تم کھارہے ہو توکہو کہ اللہ کے نام کی برکت سے ’’کھاتا ہوں ،اگر پی رہے ہو تو کہو کہ اللہ کے نام کی برکت سے پیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اگراللہ پاک بسم اللہ کے ساتھ ایک کام کی تخصیص کردیتے مثلاً یوں حکم ہوتا کہ کہو فلاں کام اللہ کے نام کی برکت سے کرتا ہوں تو وہ مناسب نہیں تھا کیونکہ برکت اسی کام میں منحصر ہوجاتی اور اسی خاص کام کے وقت ہی بسم اللہ کہا جاتا، دوسرے کاموں کے لئے نہیں،اور اگر بسم اللہ کے ساتھ سارے کام بیان کرتے تو وہ بسم اللہ، بسم اللہ نہیں رہتی بلکہ سارے کاموں سے بھر جاتی۔ اللہ کے کلام کا اعجاز اور بلاغت دیکھئے کہ بسم اللہ کہنے کا حکم دیا گیا لیکن کب کہنا ہے اس کو بندوں پر چھوڑ دیا گیا کہ جب بھی اچھا کام کرو تو اس سے پہلے تمہیں یہ کہنا ہے ۔ بہر حال اللہ کے نام کی برکت بھی ضروری ہے، اللہ کے نام کی مدد بھی ضروری اور اللہ کے نام کا ساتھ لینا بھی ضروری ہے۔اسم ِ اللہ کہنے کی حکمت: بسم اللہ الرحمن الرحیم میں بسم اللہ کہاگیا ہے ، ’’باللہ‘‘نہیں،اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیونکہ استعانت اور برکت اللہ ہی سے حاصل کی جانی چاہئے،درمیان میں اسم کا اضافہ کیوں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات نہایت ہی عظیم الشان ہے اس کی بڑائی کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے،اس لئے بغیر وسیلہ کے براہِ راست اللہ پاک سے استعانت اور تبرک حاصل کرنے میں جرأت معلوم ہوتی ہے ،اور جب اللہ کے نام کو وسیلہ بنالیا گیا تو اب کوئی جرأت کی بات نہیں ہے،اس لئے لفظ اللہ سے پہلے ’’اسم ‘‘کا تذکرہ کیا گیا ہے۔