موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
قرأت خلف الامام کے بارے میں ائمہ اربعہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کا مسلک علماء احناف فرماتے ہیں کہ جہری نمازوں میں قرأت خلف الامام مکروہِ تحریمی ہے۔لیکن سرّی نمازوں میں ترک اولیٰ ہے۔ یہی مسئلہ اختلافی مسائل میں زیادہ نازک ہے۔ دوسرا مسئلہ جیسے ہاتھ اُٹھانے کا مسئلہ ہے، یہ ضروری اور غیرضروری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اولیٰ اور خلافِ اولیٰ کا مسئلہ ہے۔ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھنے کے بعد ہاتھ اُٹھانے کا مسئلہ زیادہ بہتر کا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں ’’آمین‘‘ کہنے کا مسئلہ بھی اولیٰ اور خلافِ اولیٰ کا ہے کہ بآواز بلند کہنا بہتر ہے یا آہستہ کہنا بہتر ہے، مگر امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے مسئلے میں اختلاف شدید ہے۔ امام شافعیکا تحقیقی قول یہ ہے کہ واجب نہیں ہے۔جیساکہ کتاب الام کی ایک عبارت اس پر دلالت کرتی ہے: ’’وَنَحْنُ نَقُوْلُ کُلُّ صَلَا ةٍ صُلِّیَتْ خَلْفَ الْاِمَامِ وَالْاِمَامُ یَقْرَأُ قِرَاءَۃً لَا یَسْمَعُ فِیْھَاقَرَأ فِیْھَا‘‘ امامِ مالک اور امامِ احمد کا ایک قول یہ ہے کہ جہری نمازوں میں قرأت خلف الامام واجب نہیں ہے،اور ایک قول مستحب اور مکروہ کا بھی مروی ہے،اور سری نمازوں میں تین قول مروی ہیں ،(۱) واجب (۲) مستحب (۳)مباح ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر تحقیقی طور پر دیکھا جائے تو قرأت خلف الامام کے واجب ہونے کے متعلق ائمہ اربعہ میں سے کسی کا بھی مسلک نہیں ہے ،حتی کہ داؤد ظاہری بھی اس کے قائل نہیں ہیں،۱؎ اور ابنِ تیمیہ بھی جہری نمازوں میں اس کے قائل ------------------------------ ۱؎:کما فی احسن الکلام،بحوالہ المغنی لابن قدامہ:۱۶۰۹۔