موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
سے اُس میں مدنیت ہے۔ اس کو بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اور خود اپنے طور پر ساری چیزیں فراہم نہیں کرسکتا۔ اسی لیے دوسرے سے مدد لینا اور مدد کرنا ضروری ہے،اس کے بغیر کوئی چارۂ کار بھی نہیں ،اس لئے یہ نہ صرف جائز بلکہ شریعت میں ایسا کرنا ضروری ہے، اس کا باقاعدہ حکم دیا گیا۔ اگر کوئی آدمی ایسا نہ کرے اور دوسرے کو کوئی ضرر اور نقصان لاحق ہوگیا تو مدد نہ کرنے والا گنہگار ہوسکتا ہے۔ لیکن اس میں ایک بات یہ ضروری ہے کہ اس میں فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھنا چاہئے۔ مثلاً حفاظت کرنے والے تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں لیکن فوج سے کام لیا جائے۔ رب تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں لیکن مختلف ادارے اپنے طور پر غرباء اور محتاجوں کی ضرورتوں کا انتظام کرتے ہیں۔رب تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں لیکن ماں باپ اپنے بچے کو پالتے ہیں۔ شوہر بیوی کو پالتا ہے،کیونکہ ان کو پالنا حقوقِ شرع میں سے ہے۔ لیکن اس پالنے میں،مدد کرنے اور مددینے میں فاعلِ حقیقی رب اللہ تعالیٰ کو مانےتو اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔دوسری صورت: استعانت کی دوسری قسم یہ ہے کہ غیر اللہ سے مدد مانگی جائے،لیکن ان کو قادرِ مطلق سمجھ کر مدد طلب کی جائے،اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اُن کے پاس اختیارات ہیں تو یہ شرکِ صریح اور کفرِ صریح ہے۔اب چاہے وہ جبرئیل ہو، میکائیل ہو، اسرافیل ہو، انبیاء ہو، اولیاء ہو،کوئی بھی ہو۔ مشرکین مکہ اس درجہ کا شرک نہیں کرتے تھے، وہ لوگ اس سے کم درجے کا شرک کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قادرِمطلق تو صرف ایک ہی ہےاور وہ ہے اللہ۔حضور اکرم ﷺنے کئی دفعہ مشرکین مکہ سے پوچھا:’’ بتاؤ! زمین والے خدا قادر ہیں یا آسمان والا خد؟’’ کہنے لگے کہ آسمان والا ہی قادر ہے۔ لیکن یہ زمین والے ایسے ہیں کہ اللہ نے ان لوگوں کو کام بانٹ دیے