موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
علمِ تفسیر،آیات کے نزول،کیفیات، قصص اور آیات کے نزول کے اسباب، اسی طرح ان کے مکّی اور مدنی ہونے کی ترتیب،اور ان کے محکم اور متشابہ، ناسخ اور منسوخ ،خاص اور عام ،مطلق اور مقید، مجمل اور مفسّر،حلال اور حرام ،وعدہ اور وعید ، امر اور نہی،عبرت اور نصیحت آموز باتوں کے جاننے کا نام ہے۔ ایک مختصر تعریف علّامہ زرقانی نے یوں کی ہے : ’’عِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ أحْوَالِ الْقُرْآنِ الْمَجِيْدِ، مِنْ حَيْثُ دَلَالَتِهٖ عَلٰى مُرَادِ اللهِ تَعَالٰى، بِقَدْرِ الطَّاقَةِ الْبَشَرِيَّةِ‘‘۱؎ علمِ تفسیر ایسے علم کو کہتے ہیں جس میں انسانی طاقت کے بقدراللہ تعالیٰ کی مراد پر دلالت کرنے کی حیثیت سےقرآن مجید کے احوال سے بحث کی جائے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ پاک کی کیا مراد ہے ؟اور اللہ پاک نے اس کے کیا معنیٰ مراد لئے ہیں یہ تو انسان کے بس کی بات نہیں ہے ،لیکن انسان اپنی استطاعت کے مطابق اس کے معانی ومفاہیم متعین کرنے اور احکام وغیرہ کوثابت کرنے کے لئے ان سارے علوم کا محتاج ہے ، جن کے ذریعہ بندہ اپنی بساط کے بقدر مرادِ الٰہی پر مطلع ہوسکتا ہے۔اس لئے علامہ زرقانی نے کہا ہے کہ انسانی طاقت کے بقدر مرادِ الٰہی پر دلالت کی حیثیت سے قرآن مجید کے احوال سے بحث کرنے کانام علم ِتفسیر ہے۔تفسیر اور تاویل میں فرق: علامہ ابو منصور ماتریدی فرماتے ہیں کہ الفاظِ قرآنی کے معانی کو قطعیت کے ساتھ بیان کیا جائے کہ اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں،اس کا نام تفسیر ہے ۔اور تاویل کہتے ہیں کہ لفظ کے چند محتمل معانی میں سے کسی معنیٰ کو بغیر قطعیت کے ترجیح دی جائے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ تفسیرکا تعلق روایات سے ہوتا ہے اور تاویل کا تعلق درایات سے ہوتا ہےیعنی آیات سے متعلق روایات بیان کرنے کوتفسیر کہتے ہیں اور معانیِ قرآن اور اس کے احکام کے بیان وغیرہ کو تاویل کہتے ہیں۔ علامہ راغب فرماتے ہیں کہ تفسیر اور تاویل میں فرق یہ ہے کہ لفظِ تفسیر الفاظ اور مفردات میں استعمال ہوتا ہے اور تاویل معانی اور جملوں میں استعما ل ہوتا ہے۔اور آگے فرماتے ہیں کہ کتبِ الٰہیہ کے لئے تاویل اور دیگر کتابوں کے لئے تفسیر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ------------------------------ ۱؎:مناھل العرفان فی علوم القرآن:المبحث الثانی عشر فی التفسير والمفسرين وما يتعلق بھما۔