موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا جب امام ولاالضالین پڑھے تو تم آمین کہو۔ اس لیے کہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں،اگر فرشتوں کی آمین کے ساتھ تمہاری آمین مل گئی تو تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔کیونکہ فرشتوں کی دعا رد نہیں کی جاتی، اس لئے اگر تمہاری آمین ان کی آمین سے مل جائے تو تمہاری مغفرت ہوجائےگی۔۱؎آمین کس کا وظیفہ ہے؟ پھر اس میں اختلاف ہے کہ آمین کہنا کس کا وظیفہ ہے؟ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ آمین کہنا مقتدی اور امام دونوں کا وظیفہ ہے، اور دونوں کے لئے سنت ہے۔ حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے: ’’قال رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:’’إِذَا قَالَ الْإِمَامُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَقُولُوا:آمِينَ؛فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقُولُ: آمِينَ،وَإِنَّ الْإِمَامُ يَقُولُ: آمِينَ،الخ‘‘۲؎ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو اسلئے کہ ملائکہ آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی اس کے سابقہ گناہ معاف ہوں گے۔ یہ روایت صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ امام بھی آمین کہے گا،نیز بخاری اور ترمذی شریف میں بھی امام کے آمین کہنے کی صراحت مروی ہے،اس لئے امام اور مقتدی دونوں آمین کہیں گے۔آمین بالجہر ہے یا بالسر؟ اس پر اتفاق ہے کہ آمین جہراً اور سراً دونوں طریقہ سے جائز ہے، لیکن افضلیت میں اختلاف ہے،شوافع اور حنابلہ آمین بالجہر کو افضل قرار دیتے ہیں،امام ابوحنیفہ امام مالک اور سفیان ثوری کے نزدیک اخفاء افضل ہے۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری :کتاب الاذان ؍باب جہر الماموم بالتامین ۔ ۲؎:سنن نسائی: كتاب الافتتاح؍ جهر الامام بِآمين۔