موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اُس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی، اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہو ہی جائے ،بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حو اس کا کام ہے، اسی طرح دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجائے وحی کا منصب ہے، اور ان کے ادراک کے لئے نِری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں ۔وحی کی ضرورت عقل سلیم کا تقاضہ: جو شخص (معاذ اللہ) خدا کے وجود ہی کا قائل نہ ہو اس سے تووحی کے مسئلہ پر بات کرنا بالکل بے سود ہے، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرتِ کاملہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے وحی کی عقلی ضرورت، اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ، اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادرِ مطلق نے پیدا کی ہے، وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمتِ بالغہ سے چلا رہا ہے، اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصد کے تحت یہاں بھیجا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اُسے بالکل اندھیرے میں چھوڑدیا ہو، اور اُسے یہ تک نہ بتایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ یہاں اس کے ذمہ کیا فرائض ہیں؟ اس کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ اور وہ کس طرح اپنے مقصدِ زندگی کو حاصل کرسکتا ہے؟ کیا کوئی شخص جس کے ہوش وحواس سلامت ہوں ایسا کرسکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو ایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیج دے، اور اُسے نہ چلتے وقت سفر کا مقصد بتائے اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعہ اُس پر یہ واضح کرے کہ اسے کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے؟ اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہوگی؟ جب ایک معمولی عقل کا انسان بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا تو آخر اس خداوندِ قدوس کے بارے میں یہ تصور کیسے کیا جاسکتا ہے جس کی حکمتِ بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے ؟ یہ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند ،سورج، آسمان، زمین، ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیرالعقول نظام پیدا کیا ہے وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا انتظام بھی نہ کرسکے جس کے ذریعہ انسانوں کو ان کے مقصد زندگی سے متعلق ہدایات دی جاسکیں؟ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پر ایمان ہو تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی رہنمائی کے لئے باقاعدہ نظام ضرور بنایا ہے، بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی و رسالت ہے۔ اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ’’وحی‘‘محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت بھی ہے جس کا انکار درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کا انکار ہے۔