موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ایک جُز لے کر تشریف لے آتے ، اور بعض مرتبہ کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہوجاتیں، قرآن کریم کا سب سے چھوٹا حصہ جو مستقلاً نازل ہوا وہ ’’غیر اولی الضرر‘‘۱؎ہے جو ایک طویل آیت کا ٹکڑا ہے،دوسری طرف پوری سورۂ انعام ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ہے۔۲؎قرآن کریم کے تدریجی نزول کی حکمتیں : قرآن کریم کو یکبار گی نازل کرنے کے بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے کیوں نازل کیا گیا؟ یہ سوال خودمشرکین عرب نے آنحضرتﷺ سے کیا تھا، باری تعالیٰ نے اس سوال کا جواب خود ان الفاظ میں دیا ہے: ﴿وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيْلًا،وَلَا يَأْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيْرًا﴾۳؎ ’’اور کافروں نے کہا کہ آپ پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ اسی طرح (تدریجاً اسلئےاتارا ہے) تاکہ ہم آپ ﷺ کے دل کو مطمئن کردیں، اور ہم نے اس کو رفتہ رفتہ پڑھا ہے، اور یہ لوگ کیسا ہی عجیب سوال آپ کے سامنے پیش کریں مگر ہم ٹھیک اور وضاحت میں بڑھا ہوا جواب عنایت کرتے ہیں ‘‘۔ امام رازینے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے: (۱)آنحضرتﷺ اُمی تھے، لکھتے پڑھتے نہیں تھے، اس لئے اگر سارا قرآن ایک مرتبہ نازل ہوگیا ہوتا تو اس کا یادرکھنا اور ضبط کرنا دشوار ہوتا ۔ (۲)اگر پورا قرآن ایک دفعہ نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی، اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدیﷺ میں ملحوظ رہی ہے۔ (۳)آنحضرتﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، جبرئیل کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا، اور آپ ﷺ کی تقویتِ قلب کا سبب بنتا تھا۔ ------------------------------ ۱؎:نساء : ۹۴ ۔ ۲؎:ابن کثیر : ۲ ؍ ۱۲۲۔ ۳؎:الفرقان : ۳۲ و ۳۳۔