موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
عوارضات کے لحاظ سے احوال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آدمی کو جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ حاجتوں کا حال ہوتاہے۔ مثلاًشادی کی ضرورت ہے، نوکری کی ضرورت ہے، دوا یا پیسوں کی ضرورت ہےتو یہ حاجتوں والا حال ہے۔گناہ کی خصوصیت نقصان ہے: ایک معصیت والا حال ہوتا ہے کہ بندہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ گناہ ایسے ہی نقصان دہ ہے جیسے زہر نقصان دہ ہے۔ زہر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نہیں بھی پہنچاسکتا ۔مگر گناہ میں یہ دو چیزیں نہیں ہیں، گناہ ہمیشہ نقصان ہی پہنچاتا ہے۔ بعض دفعہ زہر نافع ہوجاتا ہے۔ ایک آدمی خودکشی کرنے کے لیے سنکھیا کھاگیا، ابھی یہ زہر معدے میں پہنچ کر اپنا اثر دکھانے ہی والا تھا کہ اُدھر سے ناگ کا گزر ہوا، اُس ناگ نے اس کو ڈس لیا۔ ناگ کے ڈسنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرمی نے سنکھیا کی ٹھنڈک کو ماردیا۔ اور وہ آدمی صحت یاب ہوگیا، تو یہاں زہر نقصان کے بجائے نفع بخش ثابت ہوا۔لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ گناہ بجائے نقصان کے نفع پہنچادے۔ زہر سے زیادہ نقصان دہ گناہ ہے۔ اسی لیے بُرے عمل کے بعد آدمی کا نقصان اس کے قابو میں نہیں ہوتا۔یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اگر اس کی حقیقت ہم پر کھل جائے تو گناہ کرتے وقت آدمی پر لرزہ طاری ہوجائے اور گناہ کرنے کی ہمت معدوم پڑجائے، کیونکہ اگر کسی سے گناہ ہوجائے تو پھر کسی مخلوق کے قابو میں نہیں کہ وہ اس کے نقصان سے اس کو بچالے،اس لئے سب سے زیادہ ضرورت آدمی کو معافی کی ہوتی ہے،صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو اس نقصان کو دور کرسکتی ہے۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میرے بندے کا یقین دیکھو، بندہ یوں کہتا ہے کہ ایک ذات ہے جو میرے گناہوں کو معاف کرسکتی ہے، کوئی اُس کو معاف نہیں کرسکتا، اس لیے وہ مجھ سے معافی مانگ رہا ہے، میں اُس کو معاف کرتا ہوں۔