موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہو۔ یہ دل والے بہت کم ہو تے ہیں ،جن کو اہلِ دل کہا جاتا ہے وہ تو حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے سچے نائبین کی ذواتِ مقدسہ ہیں کہ اُن کے پاس حق تعالیٰ کی معرفت ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے آدمی اللہ تعالیٰ کو جانتا ہے، اُس کےاندر اللہ تعالیٰ کے کلام کے سمجھنے اور جاننے کی صلاحیت ہوتی ہے، اور یہی مطلب ہے ﴿ لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ ﴾ کا کہ ایسے لوگ اس قرآن پاک سے نصیحت اور عبرت حاصل کرتے ہیں جن کے پاس حقیقی دل ہےاور جن کو بصیرت حاصل ہے۔استفادہ کی دوسری صورت: دوسری صورت قرآن پاک کو سمجھنے کی اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی یہ ہے: ﴿أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ﴾۱؎ یا پھر وہ دل سے متوجہ ہو کر بات کی طرف کان لگا دیتا ہو۔ اگر آدمی پورے حضورِ قلب اور حاضر دماغی کے ساتھ اور عظمت کے استحضار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بات کو سنے گا تب بھی اسے غیرمعمولی نفع ہوگا۔ علماء نے فرمایا کہ کلامِ الٰہی کو چاہےکوئی بھی آدمی سن لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔قاضی ثناءاللہ پانی پتی نے فرمایا ہے کہ پہلی قسم(حقیقت دل اور قلبی بصیرت) کاملین امت کی ہے اور دوسر ی ان کے متبعین اور مریدین کی ہےجو ان کے اعتقاد سے دین کی باتیں مان لیتے ہیں،یہ بھی فرمایاکہ ایسا دل صوفیہ کے ہاں فنا کے بعد ہوتا ہے۔۲؎قرآن پاک کے عجائب غیر متناہی ہیں: غرض یہ کہ اس کلام کو عظمت کے ساتھ پڑھنا چاہیے اور توجہ سے سننا چاہیے کیونکہ قرآن مجید،اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے۔ بڑائی ------------------------------ ۱؎: ق:۳۷ ۔ ۲؎: تفسیر مظہری:۱۱ ؍ ۵۵۔