موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
رہاتھا کہ کیا بات ہے؟اللہ پاک کا جواب میں سن نہیں پا رہا ہوں، یہ کیسے اللہ والے تھے ! انہوں نے اللہ پاک سے کتنا تعلق جوڑلیا تھا ،یہ ان کی کرامت تھی کہ انہیں یہ الفاظ سنائی دیتے تھے۔ پھر جب بندہ ’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘( کہ اللہ پاک بہت ہی مہربان اور نہایت رحم فرمانے والے ہیں)۔ کہتا ہےتو حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں: ’’اَثْنٰی عَلیَّ عَبْدِیْ‘‘ میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔جب بندہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتا ہے: تو حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں :’’مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ‘‘ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور میری بڑائی بیان کی۔ اور پھر اس کے بعد جب ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کہتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ پھر اُس کے بعد فرماتے ہیں:’’وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ‘‘ میرے بندے کو میں وہ ضرور دوں گاجو اس نے مانگا۔ جب بندہ ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ﴾ پڑھتا ہے تو حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ھٰذَا لِعَبْدِیْ‘‘یہ پورا کا پورا میرے بندے کا حصہ ہے۔’’وَلِعَبْدِیْ مَاسَألَ‘‘ اور میرے بندے کے لئے وہ سب ہےجو اس نے مانگا۔۱؎ میرا بندہ مجھ سے ہدایت مانگتا ہے اور زندگی گزارنے کا کامیاب راستہ مانگتا ہے میں ضرور اُس کو اس راستے پر چلاؤں گا۔’’ سورۂ فاتحہ‘‘قرآن پاک کا خلاصہ: سورۂ فاتحہ در اصل پورے قرآن پاک کا متن اور سرخی ہے۔ علماء نے فرمایا کہ قرآن پاک میں جتنے مضامین ہیں اُن سب کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں فرمادی ہے۔ جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اُس کے شروع میں تمہید لکھی جاتی ہے کہ یہ کتاب ------------------------------ ۱؎:صحیح مسلم: باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل ركعۃ۔