موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
جامع کمالات ہو۔ ’’غفور‘‘ اُس ذات کو کہتے ہیں جو خوب معاف کرنے والی ہو۔ صرف معاف کردینا تمام صفات کو جامع نہیں ہوا۔اس لئے اسمِ اللہ ہی یہاں مناسب ہے ،اب آپ تھوڑا غور کیجئے کہ اس کلام کا ایک ایک لفظ کتنا عجیب و غریب ہے؟کتنا دقیق ہے اس کے اندر کتنے معانی مضمر ہیں ، یہی کلامِ پاک کا اعجاز ہے۔ہر خوبی اللہ کی عطا کردہ ہے: پس ’’الحمد‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جتنی خوبیاں، جتنی تعریف، جتنی ستائش، کائنات کے بننے سے لے کر آج تک،جہاں کہیں بھی ہو ،جو کچھ بھی ہو،وہ سب اللہ ہی کے لیے ہیں۔ خوبی اور تعریف کسی اور کا حق نہیں ہے۔کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی خوبی ہے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے، اللہ تعالیٰ کا فعل ہے،وہ کسی اور کا نہیں ہے، اُس کے پیچھے اللہ تعالیٰ ہی کی کارفرمائی ہے۔ جیسے اگر کوئی آدمی کسی بہترین قسم کے آرٹ(Art) یا کسی تعمیر یا کسی اور چیز کو دیکھے تو بے ساختہ اس کی تعریف کرتا ہے ،یہ تعریف اصلاً اس چیز کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے بنانے والے کی ہوتی ہے۔ جب آپ پتےّ کی تعریف کریں گے تو اصل میں وہ پتہ بنانے والے کی تعریف ہوگی۔ کسی پھول کی تعریف کریں گے تو پھول کی نہیں بلکہ پھول بنانے والے کی تعریف ہوگی۔ کسی خوبصورت منظر کی آپ تعریف کریں گے تو یہ تعریف منظر کی نہیں بلکہ منظر بنانے والے کی تعریف ہوگی۔ حق تعالیٰ شانہ نے کائنات کا مستحکم اور مضبوط نظام بنایا ہے،چاند و سورج کا نظام بنایا، قرآن پاک میں ہے:﴿ وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ﴾۱؎ ’’ اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے۔ یہ (خدائے) غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے۔‘‘ ------------------------------ ۱؎:یس:۳۸۔