موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
بہت ہوتا ہے کہ کسی کو دعوت دی جاتی ہے کہ بھائی! درسِ قرآن کے لیے چلتے ہیں۔گھر سے نکلے راستے میں ایک دوست سے ملاقات ہوگئی ، گپ شپ شروع ہوئی،باتوں باتوں میں چائے نوشی کا ارادہ ہوا تاکہ آرام سے بیٹھ کرباتیں کرسکیں،پھر چائے پیتے پیتے دس بج گئے، گھر واپس چلے گئے،نکلے تھےدینی مجلس میں حاضر ہونے کی نیت سے لیکن شیطان دوست کی شکل میں آکر بہکا لے گیا۔ جب ہدایت کی یہ تین اقسام سامنے آگئیں تو اب سمجھیں کہ اللہ پاک سے ہدایت جو مانگی جارہی ہے وہ اخص الخاص ہدایت ہے،یا اللہ ہمیں محض راستے کی راہنمائی ہی نہیں بلکہ ہمیں مطلوب تک پہنچا دے،کیونکہ ہم خود سے مطلوب تک نہیں پہونچ سکتے، مطلوب تک پہونچانا صرف آپ کا کام ہے،ظاہر ہے کہ مومنین ہدایت یافتہ ہیں ،دین اسلام پر ہیں،ہدایت کی ایک قسم اراءۃ الطریق (راستہ کی رہنمائی )تو انہیں حاصل ہے،لیکن مطلوب تک پہونچے ہوئےنہیں ہیں،اس لئے اس آیت میں وہ مطلوب تک پہونچانے کی دعا مانگ رہےہیں۔قربِ الٰہی کے لا متناہی درجات ہیں: دوسرا جواب یہ ہے کہ ہدایت کی کوئی حد نہیں ہے ،اللہ پاک کے قرب کی کوئی حد نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات لامتناہی ہے،اس تک پہنچنے کے مداربھی لامتناہی ہیں،اس کے درجات بھی لا متناہی ہیں، آدمی جتنا چاہے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ سکتا ہے،اس اعتبار سے ہر آدمی جس اسٹیج پر ہے اُس سے اگلے مرحلے میں وہ ہدایت کا محتاج ہے،اس لئے اب یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ جب مومنین ہدایت پر ہیں تو پھر ہدایت کی دعا کیوں مانگ رہے ہیں،کیونکہ ہدایت اور قرب کے درجات لا متناہی ہیں،اس لئے اس اعتبار سے آدمی اللہ کے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو؟آگے کے درجات میں اور اللہ پاک کےمزید