موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
آدمی اعدادِ بسم اللہ یعنی ٧٨٦ کو بسم اللہ کی نیت سے لکھے گا تو وہ باعثِ برکت ہوسکتا ہے مگر وہ بسم اللہ کا بدل نہیں کہلائے گا اور بسم اللہ والا حکم اُس پر نہیں لگے گا۔ بسم اللہ تو قرآن مجید کی آیت ہے، اس کو بغیر وضو کے چھو نہیں سکتے۔ اور ٧٨٦ نہ آیت ہے نہ اُس کا بدل لہٰذا اُس کو چھوا بھی جاسکتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس لیے بھی لکھتے ہیں کہ کہیں بسم اللہ کی بے ادبی نہ ہوجائے، مگر کوئی آدمی خط کے شروع میں ٧٨٦ لکھتا ہے یا اپنے بورڈ کے اوپر ٧٨٦ لکھ دیتا ہے تو اُس کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اُس نے بسم اللہ لکھدی، بلکہ بسم اللہ لکھنا پڑے گا تب کہیں جاکر اُس کو بسم اللہ کی فضیلت حاصل ہوگی۔ یہ تعوذ اور تسمیہ سے متعلق کچھ تفصیل تھی ، اب سورۂ فاتحہ سے متعلق بھی چند باتیں آپ کے سامنے ذکر کی جائیں گی۔سورۂ فاتحہ کے فضائل: سورۂ فاتحہ کی بھی مستقل فضیلتیں احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب سورت ہے۔ سب سے پہلے یہی سورت مکمل نازل ہوئی۔ ۱؎ پہلے سورۂ قلم کی پانچ آیتیں نازل ہوئیں،اسی طرح سورۂ مزمل کی بھی چند آیتوں کا نزول ہوا،پھرسورۂ مدثر کی کچھ آیتیں اُتریں،لیکن ان سورتوں کو مکمل نازل کرنے سے پہلے اللہ پاک نے سورۂ فاتحہ کو مکمل نازل فرمادیا۔اور اس کو نماز میں پڑھنے کے لئے کہا،اس سے خود اللہ پاک کی شانِ کریمی ظاہر ہوتی ہے،کیونکہ اس میں اللہ پاک نے مانگنے کا طریقہ بتایا ہے،اگراس کو بندے پر چھوڑ دیا جاتا کہ تو مجھ سے مانگ اور میری تعریف کر اور میرے سامنے اپنی عاجزی کو پیش کر تو بندے کواس کا حوصلہ،قدرت اور استطاعت نہیں تھی ،اور وہ اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ کس طریقے سے اللہ پاک کی ------------------------------ ۱؎: تفسیر منار:۱/ ۲۹۔