موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہدایت کی اس قسم کےبارے میں فرمایا گیا: ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ﴾۱؎ ’’آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے(مطلوب تک نہیں پہونچا سکتے)لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘رسول سے ہدایت کی نفی کامصداق: خلاصہ یہ کہ دونوں طرح کی آیات آپ کو ملیں گی،جہاں رسول،مومنین اور کتاب کے ہادی ہونے اور راستہ دکھانے کا مضمون ہے تو وہاں اراءۃ الطریق مراد ہے،محض راستہ دکھانا اور رہنمائی کرنا مراد ہے،اور جہاں ہدایت کی نفی کی گئی ہے تو وہاں ایصال الی المطلوب مراد ہے کہ اے نبی !آپ لوگوں کو مطلوب تک نہیں پہونچا سکتے، کیونکہ مقصود تک پہنچانا ہمارا کام ہے،اس معاملہ کو اللہ پاک نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے: ’’إِنَّ قُلُوْبَ بَنِي آدَمَ كُلِّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ‘‘۲؎ ’’بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں جدھر چاہتے ہیں وہ اُن کو پلٹتے ہیں۔‘‘ اسی واسطے قلب کا نام ’’قلب‘‘ ہے اور ’’قلب‘‘ کے معنی پلٹنے کے ہیں۔ وہ ایک حالت میں نہیں رہتا۔ اوّل تووہ خود پلٹ کر ہی رکھا گیا ہے یعنی پلٹی ہوئی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس کا کچھ بھروسہ نہیں ہے، کبھی کچھ ہے تو کبھی کچھ ہے۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ جب وہ مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلتے تھے تو گھبراتے تھے۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ آپ مسجد جاتے ہوئے گھبرارہے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد تو جارہا ہوں لیکن پتہ نہیں مسجد ہی پہنچوں گا یا مے خانہ ۔ایسا ------------------------------ ۱؎:القصص:۵۶۔ ۲؎:صحیح مسلم :باب تصریف اللہ تعالیٰ القلوب کیف شاء۔