موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
فاتحہ کے بارے میں یہی کہہ رہے ہیں کہ سب لوگ مل کر پڑھنا شروع مت کردو، اللہ تعالیٰ کے سامنے بے ادبی ہوتی ہے، ایک آدمی پڑھے اور سب سنیں۔ خود حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ كَانَ لَهٗ إِمَامٌ، فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ‘‘۱؎ کہ امام کا قراء ت کرنا مقتدیوں کا قراء ت کرنا ہے۔ جب حضور ﷺ نے فرمایا کہ امام کا پڑھنا مقتدی کا پڑھنا ہے تو یہ مقتدی خاموش ہوکر بھی پڑھ رہے ہیں۔جیسا کہ ابھی گذر چکا ہے کہ قرأ ت دو قسم کی ہوتی ہیں قرأ تِ حقیقی اور قراء تِ حکمی۔ ایک ہے واقعتاً پڑھنا اور ایک ہے حکم کے اعتبار سے پڑھنا۔ ایک آدمی زبان سے اقرار کرے لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ، اور ایک شخص گونگا ہے، گونگا کلمہ کیسے پڑھے گا۔ جب وہ توحید کا اشارہ کرے گا تو کلمہ پڑھنے والے کے حکم میں آجائے گا۔ گونگے کا پڑھنا بااعتبار حکم کے ہے کہ اُس پر پڑھنے کا حکم لگادیا گیا۔ اسی طرح جو مقتدی امام کے پیچھے کھڑے ہیں یہ لوگ نہ پڑھ کر بھی پڑھنے ہی کے حکم میں ہیں۔قرأت خلف الامام کے بارے میں فیصلہ کن روایت: اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے مرض الوفات میں آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اس سلسلہ میں حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں : ’’ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أخَذَ مِنَ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَيْثُ اِنْتَهٰى أبُوْ بَكْرٍ۔ قَالَ حُسَيْنٌ سَلِيْمٌ أسَدٌ : إسْنَادُهٗ صَحِيْحٌ‘‘۲؎ ------------------------------ ۱؎:سنن ابن ماجہ: باب إِذا قرا الامام فأنصتوا۔ ۲؎:سنن ابنِ ماجہ کتاب الصلاۃ:باب ما جاء فی صلاۃ رسول اللہ ﷺ فی مرضہ،مسندِ ابی یعلیٰ:مسندِ ابنِ عباس،۲۷۰۸واللفظ لمسند ابی یعلیٰ۔